اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ایسے ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں ، ہزاروں واقعات ہمارے اسلاف کے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کاعلمی معیار کتنا بلند ہوتا تھا اور ان درسگاہوں سے وہ کیسے کامل ، قابل اورلائق بن کر نکلتے تھے۔ایک مثالی طالب علم شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحبؒ اپنے شاگردوں میں مولانا امتیاز گیاوی نامی ایک شاگرد کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ جب وہ پڑھنے آئے اس وقت سے مجھ سے تعلق ہوگیا تھا اور میرے یہاں برابر آتے جاتے تھے ،ان کو پڑھنے کے دور میں صرف ایک لڑکے کے ساتھ کبھی کبھی فارغ اوقات میںدیکھا تھا، باقی اس کے علاوہ اوقات میںنہ کسی کے ساتھ ان کو نہ ان کے کمرے میں کسی کو ،اور نہ ان کو کسی کے کمرے میں دیکھا، اس طرح اس نوجوان نے اپنا پورا دور طالب علمی پورا کیا اور فراغت پاکر ماہ مبارک گذارنے تھانہ بھون گئے، وہاں حکیم الامت حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے ان کواسی ماہ مبارک میں خلافت و اجازت عطافرمائی اور شوال میںوہ اپنے وطن چلے گئے۔ (تحفۃ المتعلّمین)علمی تنزل وانحطاط کیوں ؟ ہمارے اسلاف واکابر ان درسگاہوں سے تعلیم حاصل کرکے بڑی صلاحیت و قابلیت والے بن کر نکلے اور ایسے زبردست کارنامے انجام دئے کہ دنیا حیرت کررہی ہے۔ بقول صاحب آداب المتعلمین کے کہ ’’ان علوم کو پڑھ کر امت میں ’’قاسم ورشید، محمود و انور،یحییٰ وخلیل،مدنی وتھانوی، عثمانی وکفایت اللہ ‘‘وغیرہ سینکڑوں ایسے پیدا ہوئے جنہوں نے ایک عالم کو سیراب کیا، جو آسمان علم وہدایت کے آفتاب وماہتاب بن کر چمکے ، جن کے علوم نے اس آخری دور میں سمرقندوبخاری اور بغداد کی