اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے عہد میں سیریا (شام) کے شہر آمد کے کتب خانے میں دس لاکھ چالیس ہزار کتابیں تھیں۔ استاذ شوقی ابوخلیل لکھتے ہیں کہ چوتھی صدی ہجری میں حاکم (بامراللہ) نے قاہرہ میں بغداد کے طرز پر ایک عظیم الشان کتب خانہ ’’ دارالحکمت‘‘ کے نام سے قائم کیا تھا، جس میں ایک لاکھ جلدیں تھیں، بطلیموس کا بنایا ہوا ’’کرۂ سماویہ‘‘ Celestial Globeبھی اس کتب خانہ کی زینت تھا۔ قاہرہ میں عزیز باللہ فاطمی کے قائم کردہ کتب خانے میں دس لاکھ ساٹھ ہزار کتابیں تھیں، جن میں صرف ریاضیات پر چھ ہزار، اور فلسفہ پر دس ہزار کتابیں تھیں۔ چوتھی صدی میں ہی قائم شدہ قرطبہ لائبریری میں چار لاکھ قلمی نسخے تھے، جن کی فہرست چوالیس ضخیم رجسٹروں میں تیار کی گئی تھی۔ حما (شام) کے امیر ابوالفداء کے پاس ستر ہزار نادر اور بیش قیمت کتابیں تھیں۔‘‘دل دیورائیٹ اپنی کتاب ’’ تہذیب کی کہانی Story of Clvilization‘‘ میں لکھتا ہے، بخارا کے سلطان نے ایک مشہور طبیب کو اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی تو طبیب نے اس عذر کے ساتھ اس کی دعوت کو رد کردیا کہ اسے اپنی کتابیں منتقل کرنے کے لئے چار سو اونٹوں کی ضرورت پیش آئیگی، اس وقت یورپ کا حال یہ تھا کہ کتب خانے تو کجا کلیسائوں کے باہر بائبل بھی دستیاب نہیں تھی، (امت مسلمہ بحوالہ مسلمانوں کی علمی میراث اور اس کی یورپ منتقلی) دنیائے عرب کے علاوہ ترکی ، ایران، ماوراء النہر، اور ہندوستان میں بھی بے شمار ذاتی عوامی اور مساجد و مدارس میں کتب خانے قائم تھے۔مسلمانوں کے علمی سرمایہ سے مغرب کی خوشہ چینی مسلمانوں نے اپنے اس سرمایہ سے برابر فائدہ اٹھایااور اس میں مزید