اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
صحبت شیخ کی ضرورت باطن کو سنوارنے اور نفس کی اصلاح کے لئے کسی شیخ کی صحبت نہایت ضروری ہے ، اس کے بغیر نفس امارہ نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ نہیں بن سکتا ہے، اور بدون اصلاح نفس کے علم کا نفع بھی نہیں ہوتا۔ حضرت اقدس تھانوی ؒ کے ملفوظات میں ہے کہ علم زیادہ مقصود نہیں بلکہ اثر علم مقصود ہے اور یہ بزرگوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے، البتہ علم معین ہوجاتا ہے، صحابۂ کرام سب پڑھے لکھے نہ تھے، لیکن محض صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اعلیٰ درجۂ کمال پر پہنچا دیا تھا۔ (مقالات حکمۃ) لہٰذا طالبین کو چاہئے کہ دوران طالب علمی یا کم ازکم فراغت کے بعد کچھ نہ کچھ وقت ضرور کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر اپنا اصلاحی تعلق قائم کریں اور پھر گاہ بگاہ ان کی خدمت میں حاضری دیتے رہیں، تاکہ جو کچھ مدر سہ میں حاصل ہورہا ہے اس پر عمل کی ہمت اور قلب میں قوت پیدا ہوجائے۔ بے رفیقے ہر کہ شددرراہ عشق عمر بگذشت و نہ شد آگاہ عشق حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ سے کسی نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ مدارس کے طلبہ اس زمانے میں عملی کوتاہیوں میں مبتلا ہیں، تو حضرت نے بہت عمدہ جواب دیا، فرمایا کہ دین مجموعہ ہے دو جز کا، ایک علم نبوت اور دوسرے نور نبوت، چونکہ طلبہ علم نبوت کو حاصل کرتے ہیں اور اللہ والوں سے نور نبوت حاصل نہیں کرتے، اسلئے علم پر قوت عملیہ سے محروم رہتے ہیں، حق تعالیٰ نے اس کی تائید میں قرآن پاک کی ایک آیت میرے قلب میں ڈالی ہے، جس سے اس مضمون کی تائید اور تفصیل ہوجاتی ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’قَدْ جَآئَ کُمْ مِنَ اللّٰہِ نُوْرُٗوَّکِتٰبُٗ مُّبِیْنُ