اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
کیا اب رازی و غزالی پیدا نہیں ہو سکتے اسلاف کی طالبعلمانہ زندگی کے نہج پر طالب علمی کی زندگی گذار کر طلبہ آج بھی کا میابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ یہ قصہ ماضی پر ختم نہیںہوگیا، یہ کوئی ماضی ہی کی خصوصیات نہیں تھی، بلکہ آج بھی آپ یہ صدا لگاسکتے ہیں۔ ؎ کہدو میرو غالب سے کہ ہم بھی شعر کہتے ہیں ٭ وہ تمہارا دور تھا یہ ہمارا دور حضرت اقدس تھانوی قدس سرہ ایسے ہی طالبین سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ اس احساس کمتری میںکیوں مبتلاہوگئے کہ اجی اب رازی وغزالی کے سے علوم اور ان کے جیسے رجال کہاں پیدا ہوں ! اب تو اس کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا فیض ہروقت ہرزمانے میںیکساں ہے۔ اس کی رحمت وفیض سے کچھ بعید نہیں کہ آج بھی رازی وغزالی پیدا ہوں ، بلکہ اس وقت بھی رازی وغزالی موجود ہیںاور ہرزمانے میںپیدا ہوتے ہیں ، ہے تو بے ادبی مگر میںبے ادبی نہیں سمجھتا، اس لئے کہ یہ عرفاً بے ادبی سمجھی جاتی ہے ،حقیقت میں بے ادبی نہیں ہے ، وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل وکرم سے امام غزالی اور رازی سے افضل موجود ہیں، دیکھ لیجئے امام غزالی اور رازی کی بھی مصنفات موجود ہیں اور اس وقت کے بعض بزرگوں کی موجودہیں ، موازنہ کرلیا جائے حضرت ! نبوت ختم ہوئی ہے ، علم وولایت ختم نہیں ہوئی، خدا کی قسم ! غزالی ورازی اب بھی ہوسکتے ہیں ، کیا حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرھما غزالی ورازی سے کچھ کم تھے، واللہ ! بعض تحقیقات میں یہ حضرات ان سے بھی بڑھے ہوئے تھے۔ ؎ ہنوز آں ابررحمت درفشاں ست خم وخم خانہ بامہرونشان ست یعنی اب بھی وہ ابررحمت درفشاں ہے، خم اور خم خانہ مہرونشاں کے ساتھ ہے