اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
حصہ سونے کیلئے ،ایک نماز کے واسطے اور ایک درس کے لئے ، وہ بہت زیادہ جاگتے تھے، کسی نے پوچھا آپ سوتے کیوں نہیں؟ توفرمایا میں کس طرح سوجاؤں حالانکہ مسلمانوں کی آنکھیں ہم لوگوں پر بھروسہ کرکے سوئی ہوئی ہیں۔ امام غزالی ؒنے امام شافعی ؒکا بھی یہی معمول لکھاہے۔ رُوِیَ اَنَّہٗ کَانَ یُقْسِمُ اللَّیْلَ ثَلٰثَۃَ اَجْزَائٍ ثُلُثًا لِلْعِلْمِ وَثُلُثًالِلْعِبَادَۃِ وَثُلُثًا لِلنَّوْمِ (احیاء ۱/۴۲) مروی ہے کہ امام شافعی بھی رات کے تین حصے کرتے تھے ، ایک ثلث علمی اشتغال میں گذرتاتھا، ایک ثلث عبادت کیلئے او رایک ثلث آرام فرماتے تھے۔ عمرو بن دینار جوسفیان ثوری وشعبہ وغیرہ کے استاذ اور حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر کے شاگرد ہیں، ان کے حالات میںلکھا ہے کہ ’’رات کو انہوں نے تین حصوں میں تقسیم کردیا تھا ، ایک ثلث تو آرام کیلئے تھا، دوسرے ثلث میںوہ حدیثیں یاد کرتے تھے اورتیسرے ثلث میںنمازیں پڑھتے تھے۔ (تدوین حدیث)ابن الاعرابی اور ذوق مطالعہ ابن الاعرابی کے بارے میں ثعلب لکھتے ہیں کہ محض اپنی یادداشت سے انہوںنے اتنا کثیر علم لکھایا کہ کئی اونٹوں کے بوجھ کے برابر ہے۔ ان کے ذوق کتب بینی کو بیان کرتے ہوئے احمد بن عمران کہتے ہیں کہ میںاحمد بن محمد بن شجاع کی مجلس میںموجود تھا ،انہوںنے اپنے خادم کو بھیجا کہ ابن الاعرابی کو بلالائے ، خادم نے لوٹ کر بیان کیا کہ ابن الاعرابی کہتے ہیں کہ میرے پاس کچھ عرب آئے ہوئے ہیں ، ان سے چھٹی پاکر آؤںگا حالانکہ میں نے خود دیکھا کہ اکیلے بیٹھے ہیں، کتابوں کا انبار سامنے لگاہے، کبھی اس کتاب کو دیکھتے ہیں کبھی وہ کتاب اٹھالیتے ہیں، تھوڑی دیر بعد ابن الاعرابی آگئے۔ ابن شجاع نے کہا سبحان اللہ ! آپ نے ہمیں اپنی صحبت سے محروم رکھا