اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ہمارے اسلاف واکابر دینی کتب کا اس قدر ادب واحترام کرتے تھے کہ حتی الامکان بے وضو ہاتھ نہ لگاتے تھے۔ تعلیم المتعلم میں ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ کسی موقع پر ان کو پیٹ کی شکایت ہوگئی تھی، جس کے سبب وضو نہیں رہتا تھا، ایک شب میں تقریباً سترہ دفعہ وضو کی ضرورت پیش آئی اور ہرمرتبہ انہوں نے وضو کیا۔ ضرار بن مرہ کہتے ہیں کہ بے وضو حدیث سنانے کو سلف صالحین مکروہ سمجھتے تھے۔ اسحق کہتے ہیں کہ اعمش کوجب حدیث روایت کرنا ہوتی اور باوضو نہ ہوتے تو تیمم کرلیتے تھے ۔ امام شریک خلیفہ مہدی کے لڑکوں کے استاذ تھے ، خلیفہ مہدی کا ایک لڑکا آیا اور اس نے کھڑے کھڑے کوئی حدیث پوچھی، حضرت شریک نے کوئی توجہ نہ دی اس نے پھر پوچھا ، آپ نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا، لڑکے نے خفا ہوکرکہا کیا آپ شہزادوں کی تحقیر کرتے ہیں؟ امام شریک نے فرمایا ،اہل علم کے نزدیک شہزادوں کی بہ نسبت علم کی زیادہ قدروعظمت ہے، وہ اس کو رائیگاں نہیں کرنا چاہتے، یہ سن کر شاہزادہ دوزانوبیٹھا اور امام شریک نے علمی باتوں کا جواب دیا ۔ (ناقابل فراموش واقعات) شعبہؒ کہتے ہیں کہ قتادہ وضو کے بغیر حدیث کبھی نہیںسناتے تھے، یہی حال جعفر بن محمد، امام مالک، سعید بن المسیب، وغیرہ علماء کا تھا۔امام مالکؒ اور حدیث کا ادب واحترام عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ حضرت امام مالک ؒ ہم لوگوں کو حدیث پڑھارہے تھے، ایک بچھونے (جواُن کے کپڑے میںکسی طرح گھس گیا) سولہ دفعہ ڈنک مارے ، امام مالک کا چہرہ ہر ڈنک پرمتغیر ہوکر زرد پڑجاتاتھا، لیکن حدیث