اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
، وہ کہتے آپ نے کسی کو بھیج دیا ہوتا اور میں خود چلا آتا ،میں جواب دیتا نہیں ا س کام کے لئے مجھ ہی کو آنا چاہئے تھا، اس کے بعد یہ ہوا کہ جب اصحاب رسول اللہ ؐ گذر گئے تو وہی انصاری دیکھتا کہ لوگوں کو میری کیسی ضرورت ہے اور حسرت سے کہتا ابن عباس !تم مجھ سے زیادہ عقل مند تھے، (جامع بیان العلم) بخاری کتاب المغازمی میں ہے کہ عمرو بن سلمہ نے بیان کیا کہ میں چھ سات سال کا تھا میرے والدین اور قبیلے کے لوگ ا بھی مسلمان نہ ہوئے تھے، ہمارا گائوں مدینہ طیبہ کے راستہ پر تھا، میں ہر روز راستہ پر آکر بیٹھ جاتا تھا اور مدینہ طیبہ سے آنے والے لوگوں سے پوچھ پوچھ کر قرآن مجید یاد کیا کرتا تھا، کچھ دنوں کے بعد جب میرے قبیلے کے لوگ اسلام لائے اور میں بھی مسلمان ہوا تو وہ لوگ مجھ ہی کو نماز میں امام بناتے تھے ، کیونکہ میں نے پہلے ہی سے راستہ پر گزرنے والوں سے قرآن مجید کا بہت سا حصہ یاد کرلیا تھا اور مجھ سے زیادہ کسی کو یاد نہ تھا۔(انوار الباری)نوجوانوں میں علمی ذوق وشوق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بچوں کی طرح نوجوانون میں بھی علم کا بے پناہ شوق تھا، مقامی اور قرب و جوار کے طلبہ کے علاوہ دور دراز سے بھی لوگ وفود اور جماعتوں کی شکل میں حضورؐ کی خدمت میں دین سیکھنے کے لئے آتے تھے، ہر وقت، ہر آن، سفر میں، حضر میں، گھر پر، مسجد میں عام مجمع میں اور نجی مجلسوں میں حتیٰ کہ جہاد و غزوات میں بھی ان کا مشغلہ قرآن پڑھنے پڑھانے کا اور علم سیکھنے سکھانے کا تھا۔ حضرت ابو سعید خذریؓ کا بیان ہے، کَانَ اَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَاقـَـعَــدُ ْوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جب بیٹھ کر آپس میں گفتگو کرتے