اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
قبولیت دعا کی شرائط قرآن کریم کی جس آیت میں دعا کا حکم دیا گیا ہے اس میں تو بظاہر کوئی شرط نہیں ہے، یہاں تک کہ مسلمان ہونا بھی قبولیت دعا کی شرط نہیں ہے، کافر کی دعا بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے، یہاں تک کہ ابلیس کی دعا تا قیامت زندہ رہنے کی قبول ہوگئی، نہ دعا کے لئے کوئی وقت شرط، نہ طہارت اور نہ باوضو ہونا شرط ہے۔ مگر احادیث معتبرہ میں بعض چیزوں کو موانع قبولیت فرمایا ہے، ان چیزوں سے اجتناب لازم ہے، جیسا کہ حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ بعض آدمی بہت سفر کرتے اور آسمان کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور ’’یا رب یا رب ‘‘کہکر اپنی حاجت مانگتے ہیں مگر ان کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ان کو حرام ہی سے غذا دی گئی تو ان کی دعا کہاں قبول ہوگی۔ (رواہ مسلم) اسی طرح دوسری چیز غفلت و بے پرواہی کے ساتھ بغیر دھیان دئے دعا کے کلمات پڑھیں تو حدیث میں اس کے متعلق بھی آیا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ قَلْبٍ لَاہٍغفلت والے دل کی دعا اللہ قبول نہیں کرتے۔ (مستفاداز معارف القرآن) اسی طرح تیسری چیز جو دعا کی قبولیت کے لئے رکاوٹ بنتی ہے وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دینا ہے، جو اس امت کا فریضہ اور تمغۂ امتیاز ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسولِ خدا ؐ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے چہرۂ انور پر ایک خاص اثر دیکھ کر محسوس کیا کہ کوئی اہم بات پیش آئی ہے، حضور اقدس نے کسی سے کوئی بات نہیں کی اور وضو فرماکر مسجد میں تشریف لے گئے ، میں مسجد کی دیوار سے لگ گئی تاکہ جو کچھ ارشاد ہو اس کو سنوں ،آپؐ نے حمد و ثنا کے بعد