اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ایمان لے کر نکل جاوے پھر اینٹھے جتنا چاہے، بندے وہ تھے جیسے مولانا قاسم صاحب کہ فرمایا کرتے تھے اگرچار حرف جاننے کی تہمت نہ ہوتی اور اس سے لوگ نہ جان گئے ہوتے تو ایسا گم ہوتا کہ کوئی یہ بھی نہ پہچانتا کہ قاسم دنیا میں پیدا بھی ہوا تھا۔ (کمالات اشرفیہ) ایک مرتبہ حضرت گنگوہی ؒمسجد کے صحن میں حدیث کا سبق پڑھا رہے تھے کہ بارش آگئی، سب طلبہ کتابیں لے کر اندر کو بھاگے ،مگر حضرت سب طلبہ کی جوتیاں جمع کررہے تھے کہ اٹھا کر چلیں، لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو کٹ کر رہ گئے، حضرت نے فرمایا میں تم میں سے ایک ادنی طالب علم کو اپنے سے بدرجہا بہتر سمجھتا ہوں۔ حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ کے کمال فنائیت کی یہ بات ہے کہ اپنے استاذ شفیق حضرت شیخ الہند سے بیعت ہونے کے باوجود اپنے شاگرد رشید حضرت مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہؒ سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا اور اس پیرانہ سالی میں دیوبند سے الہ آباد جیسے دور دراز شہر کا سفر فرمایااور حضرت مصلح الامت کی خدمت میں تشریف لائے۔ (اقوال سلف) حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ میں تواضع و انکساری حد درجہ تھی، حضرت تھانویؒ آپ کی تواضع کے متعلق فرماتے ہیں کہ مولانا میں حضرات سلف کی سی تواضع تھی کہ مسائل و اشکالات علمیہ میں چھوٹوں سے بھی مشورہ فرماتے تھے اور چھوٹوں کی معروضات کو شرح صدر کے بعد قبول فرما لیتے تھے۔امام احمد بن حنبل کی تواضع اور کسرنفسی امام احمد بن حنبلؒ کی تواضع اوراخفائے حال کا یہ حال تھا کہ اگرچہ وہ عالی نسب عرب تھے اور یہ اس دور میں بڑا سرمایۂ فخر تھا، لیکن اس کا تذکرہ بھی وہ پسند نہیں کرتے تھے، علامہ ذہبی ان کے ایک معاصر ابو نعمان سے نقل کرتے ہیں کہ