اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
رئیس زادہ تشریف لائے، کئی نوکر اوربہت کچھ سامان ان کے ساتھ تھا، نہایت شان وشوکت کا ایک عمدہ مکان کرایہ پر لے کر رہائش کاانتظام کیا اور روزانہ لباس بدل کر سبق کے لئے آتے ، ملازم کتاب لئے ساتھ ہوتا تھا، اسی طرح چند روز گذرے۔ حضرت مولانا نے جب ان کو ذکی اورہونہار پایا تو ایک دن فرمایا کہ صاحبزادے باپ کی دولت کو اس طرح ضائع نہ کرو، اگر علم حاصل کرنا ہے تو یہ کپڑے اور یہ پیالہ لو اور مسجد میںدیگرطلباء کے ساتھ رہو، کھانا دونوں وقت گھر سے مل جایا کرے گا، اگریہ نہیںہوسکتاتو بیکار وقت اور دولت خراب نہ کرو، اس شان وشوکت کے ساتھ علم دین کی دولت ہاتھ نہیں آسکتی، انہوں نے پیالہ اورکپڑے ہاتھ میں لئے اور مسجد میںجاکر لباس تبدیل کیا اور ملازمین اورتمام سامان کو گھر واپس کردیا ، پھر چند سال رہ کر تعلیم کی تکمیل کی، (مشائخ کاندھلہ) جب طالب علم نازونعمت کی زندگی بسر کرے گااور اسباب راحت کی فروانی ہوگی تو عام طور پر طلبہ علم کی دولت حاصل نہیںکرسکتے ، بلکہ زیب وزینت اور راحت وآسائش کے چکر میں اس شعر کے مصداق ہورہتے ہیں۔ ؎ عمرگرانمایہ دریں صرف شد تاچہ خورم صیف وچہ پوشم شتا عمر عزیز ساری اسی میں گذری کہ گرمی میں یہ فکر لگی ہے کہ کیا کھائیںگے، اورسردی کے زمانہ میں اس میں سرگرداں ہے کہ کیا پہنیںگے۔درس گاہ نبوی کے طلبہ کا حال فضالہ بن عبید ؒ کابیان ہے (جس سے درسگاہ نبوی کے طلبہ کاحال معلوم ہوتا ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھاتے تو اصحاب صفہ بھوک کی شدت کی وجہ سے کھڑے کھڑے زمین پر گرجاتے تھے اور اعراب ان کومجنون ودیوانہ کہتے تھے۔