اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
اور رحمت الٰہی اب بھی ایسی ہے جیسے پہلے تھی، لہٰذا آج بھی ان علوم کو پڑھ کر وہ استعداد یں پیدا ہوسکتی ہیں اور غزالی ورازی جیسے رجال آج بھی امت میں پیدا ہوسکتے ہیں۔ہمارا درس نظامی بہترین قابلیت کا ضامن ہے ہمارے مدارس عربیہ کا درس نظامی یعنی نصاب مروج جس کو مولانا نظام الدین طوسی بغدادی نے مرتب کیا ہے۔ انہوں نے اس بات کو پیش نظر رکھا ہے کہ کتابیں تو ہرفن میں کثیر درکثیر ہیں۔ سب کودرس کو طے کرنا کراناتو بہت مشکل ہے۔ لہٰذا ایسی تدبیر ہوکر اس نصاب کو پڑھ کر طالب علم کی استعداد ایسی کامل ہوجائے کہ جو کتابیں نہ بھی پڑھی ہوں تو ان کو بھی نکال سکے، اگر کوئی موقع ایسی نہ پڑھی ہوئی کتابوں کے پڑھانے کا آجائے تو ان کوبھی پڑھاسکے ، چونکہ نصاب کے کتابوں کی انتخاب میںمعلومات کی کثرت اور زیادتی کی بہ نسبت طالب علم کی کمال استعداد اور علمیت کو خاص طورپر مدنظر رکھا گیا ہے ، چنانچہ وہ اپنے اس نظریہ میںبفضلہ تعالیٰ پورے کامیاب ہیں۔ اسی لئے ہمارے حضرت تھانوی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ اگرعربی کا طالب علم اس درس نظامی کواوسط درجہ کی فہم واستعداد کے ساتھ بھی پڑھ لے تو عجیب وغریب استعداد اور بہترین قابلیت پیدا ہوجائے۔ ایسی قابلیت کہ پھر کوئی کہیں کا بھی ڈگری یافتہ ہو، برطانیہ کا ہو امریکہ کا ہو ، یا لندن کا ، کوئی بھی اس عربی طالب علم کے سامنے چل نہیں سکتا۔ (افادات مسیح الامت) لہٰذا آپ درس نظامی میں مضبوطی کے ساتھ لگے رہیںاور برابر محنت اور جدوجہد کرتے رہیں ، انشاء اللہ بہترین قابلیت پیدا ہوجائیگی ، ہمارے اسلاف اسی نصاب کو پڑھ کر قابل بنے تھے۔