اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوتیں صرف فرمائیں اور وہ کام ہے اللہ کے بندوں کو اور خاص طور سے غافلوں، بے طلبوں کو اللہ کی طرف لانا، اور اللہ کی باتوں کو فروغ دینے کے لئے جان کو بے قیمت کرنے کا رواج دینا، بس ہماری تحریک یہی ہے اور یہی ہم سب سے کہتے ہیں، یہ کام اگر ہونے لگے تو اب سے ہزاروں گنے زیادہ مدرسے اور ہزاروں گنی ہی زیادہ خانقاہیں قائم ہوجائیں ، بلکہ ہر مسلمان مجسم مدرسہ اور خانقاہ ہوجائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی نعمت اس عمومی انداز سے بٹنے لگے جو اس کے شایاں شان ہے۔ (دینی دعوت)عمومی طور پر ہدایت پھیلنے کا راستہ تعلیم و تعلم کو کتابوں کے نقوش اور مدارس کے حدود میں محدود کردینا قرون متاخرہ کا طریقہ ہے اور امت کے بہت بڑے طبقہ کواس دولت سے محروم کردینے کے مرادف ہے، اسطرح امت کا بہت مختصر طبقہ دین کے علم سے منتفع ہوگا اور وہ بھی اکثر محض نظری اور ذہنی طور پر۔ دین کے تعلیم و تعلم کا فطری اور عمومی طریقہ جس سے لاکھوں افراد بلا کسی ساز و سامان کے تھوڑے وقت میں علم دین نہیں بلکہ نفس دین حاصل کرسکتے ہیں، وہ اختلاط و اجتماع ، صحبت سعی و عمل میں رفاقت اور اپنے ماحول سے نکلنا ہے، جس طرح زبان و تہذیب اہل زبان اور مہذب و شائستہ لوگوں کی صحبت و اختلاط سے حاصل کی جاتی ہے اور یہی ان کے سیکھنے کا فطری طریقہ ہے، اسی طرح دین کا صحیح علم اہل دین کی صحبت و اختلاط ، رفاقت اور اجتماع سے حاصل ہوسکتا ہے اور یہی وجہ اس کے حصول کا فطری طریق ہے کہ اس کے بہت سے اجزاء ایسے ہیں جو قلم کی گرفت سے باہر ہیں، دین ایک جاندار اور متحرک شے ہے، کتابوں کے نقوش جامد ہیں، جامد سے متحرک کا حاصل ہونا قانون فطرت کے خلاف ہے ، دین کا کچھ