اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
کا سفر محض اس لئے اختیار کیا کہ حضرت عقبہ ابن عامر سے ایک حدیث سنے، چنانچہ پہنچے اور حضرت عقبہ نے استقبال کیا تو فرمانے لگے میں ایک حدیث کے لئے آیا ہوں جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے والوں میں اب تمہارے سوا کوئی باقی نہیں، پس حضرت عقبہ نے وہ حدیث سنائی۔ حضرت سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ میں ایک ایک حدیث کے لئے کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں سفر کیا کرتا تھا، جندب بن عبداللہ بجلی بیان کرتے ہیں کہ میں طلب علم میں مدینہ آیا اور مسجد نبوی میں گیا تو دیکھا کہ لوگ حلقہ درحلقہ آپس میں حدیث بیان کررہے ہیں، میں ان حلقوں سے گذرتا ہوا ایک حلقہ میں پہنچا۔ (خیرالقرون کی درسگاہیں) حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ واللہ کتاب اللہ کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ کہاں اور کس معاملہ میں نازل ہوئی ہے، اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کوئی شخص کتاب اللہ کا مجھ سے بڑا عالم ہے تو میں سواری کرکے اس کے پاس جائونگا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دھن مبارک سے ستّر سے زائد سورتیں حاصل کی ہیں، صحابہ کو معلوم ہے کہ میں ان لوگوں میں قرآن مجید کا سب سے بڑا عالم ہوں، اگرچہ میں ان میں اچھا نہیں ہوں، وَمَااَنَابِخَیْرِہِمْ۔ (بخاری)بچوں میں علمی ذوق و شوق درسگاہ نبوی میں مدینہ اور اطراف کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے اور ان کے علاوہ دور دراز مقامات اور مختلف قبائل کے طلبہ یعنی وفود کے ساتھ ان کے بچے بھی ضد کرکے بڑے شوق سے مدینہ آتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے حضرات سے قرآن اور دین کی تعلیم حاصل کرتے تھے اور ان میں سے بعض اپنے بڑوں اور بزرگوں سے زیادہ علم حاصل کرلیتے تھے۔