اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
نَعَمْ التَّجَافِی عَنْ دَارِالْغُرُوْرِ وَالْاِنَابَۃُ اِلٰی دَارِالْخُلُوْدِ وَالْاِسْتِعْدَادْ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُوْلِہٖ ہاں ! دنیا سے دوری ، آخرت کی طرف رجوع اورموت سے پہلے موت کی تیاری (احیاء) امام غزالی ؒ فرماتے ہیں جن کو حقیقی علم کی دولت سے نوازا جاتا ہے ان میں پانچ طرح کے اوصاف پیدا ہوتے ہیں خوف وخشیت ، خشوع ، تواضع ، حسن خلق اور زہد یعنی دنیا سے بے رغبتی ۔علم رسمی اور اس کی علامات علم رسمی کی علامات بتاتے ہوئے علامہ رومیؒ فرماتے ہیں ؎ علم رسمی سربسر قیل است وقال ٭ نے ازو کیفیتے حاصل نہ حال یعنی علم رسمی محض قیل وقال کانام ہے کہ نہ تو اس سے کوئی کیفیت حاصل ہوتی ہے نہ اس سے مذکورہ بالا صفات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا علم چاہے کتنا ہی حاصل ہوجائے اس سے کوئی فائدہ نہیں ، یہ علم غیر نافع ہے جوانسان کے لئے وبال جان اور بڑی گمراہی وبربادی کاذریعہ ہے، اسی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ اس علم سے پناہ مانگی ہے۔ ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذِبِکَ مِنْ عِلْم لَّایَنْفَع‘‘ ایسے ہی علم کے متعلق حدیث میں فرمایا ’’وَاِنَّ مِنَ الْعِلْمِ لَجَھْلًا‘‘ بعض علم جہالت ہے یعنی علم ہوتے ہوئے جہالت ہے، روشنی ہوتے ہوئے اندھیرا ہے، اسی علم کی نسبت سورۂ جاثیہ میںفرمایاگیا۔ اَفَرَئَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھواہٗ وَاَضَلَّہُ اللّٰہ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ بھلا دیکھئے تو جس نے اپنی خواہشات کو اپناخدا اور حاکم