اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اورعرض کیا کہ یارسول اللہ ! یہ نسخہ تو رات کا ہے آپ ؐ یہ سن کر خاموش ہورہے ، حضرت عمرؓ نے اس کوپڑھنا شروع کیااور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ متغیر ہوگیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ اے عمر! روویں تجھ کو رونے والیاں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کو تودیکھ کہ ناخوشی کے آثارپائے جاتے ہیں، حضرت عمرؓ نے دیکھتے ہی فرمایا ، پناہ مانگتا ہوں اللہ کے غصہ سے اور اللہ کے رسول کے غصہ سے (رواہٗ الدارمی) اس حدیث سے ایک حق استاذ کا یہ ثابت ہوا کہ اگر وہ کسی بات پر غصہ کرے تو شاگرد کو معذرت کرنا اور اس کو خوش کرنا ضروری ہے ۔ (اصلاح انقلاب)استاذ کا تکدر وانقباض محرومی کا باعث ہے لہٰذا استاذ کو ہمیشہ راضی رکھنا چاہیئے اگرکسی وقت استاذ کی بے ادبی نافرمانی یاایذارسانی ہوجائے توفوراً نہایت نیازوعجز سے معافی مانگ لے اور الفاظ معافی کے ساتھ اعضاء سے بھی عاجزی وانکساری اورندامت ٹپکے، اگر دل میں ندامت ہوگی تو اعضاء سے بھی ندامت ٹپکے گی ،اگر نہ بھی ہوتو بناوٹ کردے، اصل نہ ہوتو نقل ہی سہی ،مگر تاخیرنہ کرے ، کیونکہ اگر استاذ دنیا دار ہوگاتو اس کی کدورت بڑھ جائے گی اور تمہارا نقصان ہوگا اور اگروہ دیندار ہوگا تو کدورت وغیرہ خرافات کو اپنے دل میں جگہ نہ دے گا مگر طبعی رنج ہوگا اور یہ بھی طالب کیلئے مضر ہے ،کیونکہ اس حالت میںانشراح قلب نہ رہے گا اور بغیر انشراح قلب نفع نہ ہوگا، اور تاخیر کرنے میں یہ بھی خرابی ہے کہ جتنی تاخیر ہوگی اتناہی حجاب بڑھتا جائیگا۔ (رحمۃ المتعلمین) اگراستاذ کی طرف سے کوئی بات خلاف مزاج پیش آئے تو بھی اپنے دل کو