اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
حضرت کا چہرہ غصہ کی وجہ سے سرخ ہوگیا او رغصہ میں فرمایا ’’چلو وہ تو باولا ہے۔ ‘‘ چند ہی روز بعد یہ طالب علم باؤلا ہوگیا۔ اس زمانے میں کوے کامسئلہ زوروں پر تھا، یہ طالب علم ایک بانس کے اوپر کوے کو باندھ کر سارے دن گنگوہ کی گلیوں میںیہ اعلان کرتا پھرتا کہ یہ کوا حلال ہے ۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ غَضَبِکَ وَغَضَبِ رَسُوْلِکَ وَغَضَبِ اَوْلِیَائِکَ (تذکرہ الخلیل وآپ بیتی)ہمارے اسلاف اوراساتذہ کا ادب واحترام امام شعبیؒ کہتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت ؓ سوارہوکر جارہے تھے ، حضرت عبداللہ بن عباس ان کو دیکھ کر قریب ہوگئے اورگھوڑے کی رکاب تھام لی، توحضرت زیدبن ثابت نے کہا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی! ایسا نہ کیجئے ، ابن عباسؓ نے فرمایا کہ ہمیں اپنے علماء کی اسی طرح تعظیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت زید بن ثابت نے کہا مجھے اپنا ہاتھ دکھایئے ، پھر ابن عباس کے ہاتھ کوپکڑ کربوسہ دیااور فرمایا کہ ہمیں اپنے اہل بیت کے ساتھ اسی طرح محبت کرنے کا حکم دیا گیاہے۔ (اخلاق العلماء) حضرت سعید بن جبیر کہا کرتے تھے کہ حضرت ابن عباس ؓ مجھے حدیثیں سناتے تھے اگر اجازت دیتے کہ اٹھ کر پیشانی چوم لوں تو ضرور چوم لیتا۔ امام ابویوسف ؒ کے دل میں اپنے اساتذہ کی عظمت کا یہ حال تھا کہ عمرو بن حمادؒ فرماتے ہیںکہ میں نے ابویوسف سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اپنے استاذ امام ابوحنیفہ اورابن ابی لیلی کی مجلس سے زیادہ محبوب میںنے کوئی مجلس نہیں دیکھی۔ ابوحنیفہ سے بڑا کوئی فقیہ اور ابن ابی لیلی سے بڑاکوئی قاضی نہیں دیکھا۔