اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہماری بھی حالت ہے کہ ہر لمحہ برف کی طرح تھوڑی تھوڑی عمر ختم ہوتی جاتی ہے۔ اسے پگھلنے سے پہلے جلدی بیچنے کی فکر کرو۔ حضرت مفتی محمود الحسن صاحبؒ کے پاس ایک طالب علم نے آکر کھیل کے متعلق سوال کیا، حضرت نے فرمایا کیوں کھیلتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ وقت پاس کرنے کو کھیلتے ہیں، اس پر فرمایا کہ وقت پاس کرنے کیلئے یہاں آجایا کریں، وقت گذارنے کا طریقہ بتلادوں گا۔ کتاب دیدونگا کہ یہاں سے یہاں تک یاد کرکے سنائیں ، اس کے بعد فرمایا وقت حق تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، اسے غبار سمجھ کر پھینک دینا بڑی ناقدری ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے اشرفیوں کا ڈھیر کسی کے سامنے ہو اور وہ ایک ایک اٹھاکر پھینکتا رہے۔ ؎ تیرا ہر سانس نخل موسوی ہے ٭ یہ جزرومدجواہر کی لڑی ہےہمارے اسلاف اور حفظ اوقات ہمارے اسلاف کی زندگی میںاوقات کی اہمیت اور قدردانی نمایاں طریقہ پر تھی، کوئی گھڑی اور لمحہ ضائع نہیں ہوتاتھا۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ان کو اعلیٰ درجۂ کمال پر پہنچایا تھا۔ امام محمدعلیہ الرحمہ کے حالات میں لکھاہے کہ دن ورات کتابیں لکھتے رہتے تھے۔ ایک ہزار تک ان کی تصانیف بتائی جاتی ہیں۔ اپنے تصنیف کے کمرے میں کتابوں کے ڈھیر کے درمیان بیٹھے رہتے تھے۔ مشغولیت اس درجہ تھی کہ کھانے اور کپڑے کا بھی ہوش نہ تھا۔ (انوارالباری) حضرت مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کی جو مطالعہ گاہ تھی، اس کے تین دروازے تھے ،ان کے والد نے تینوں دروازوں پر جوتے رکھوائے تھے تاکہ اگر ضرورت کے لئے باہر جاناپڑے تو جوتے کیلئے ایک منٹ ،آدھا منٹ ضائع نہ ہو۔