اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ہوا تو عزیز مرحوم مجھ سے جاتے ہی وعدہ لے لیتے کہ بھائی جی! فلاں جگہ جانے کا آپ نہ کہیں اور جب چچا جان مجھ سے ارشاد فرماتے کہ یوسف کو ساتھ لیلو تو میں بھی معذرت کرتا کہ اس نے آتے ہی مجھ سے یہ وعدہ لے لیا ہے کہ میں نہ کہوں، اور آج ہمارے طلبہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔امام ابو یوسفؒ اور اسباق کی پابندی صاحب آداب المتعلمین نے مناقب موفق کے حوالہ سے امام ابویوسف کا یہ بیان نقل کیا ہے ’’مَاتَ اِبْنُٗ لِیْ فَلَمْ اَحْضُرْ جِہَازَہٗ وَلَادَفْنَہٗ وَ تَرْکَتُہٗ عَلٰی جِیْرَانِی وَ اَقْرَبَائِیْ مَخَافَۃَ اَنْ یَّفُوْتَنِیْ مِنْ اَبِی حَنِیْفَۃَ شَئيُٗ وَلَا تَذْہَبَ حَسْرَتُہٗ عَنِّی‘‘ یعنی میرے بیٹے کا انتقال ہوگیا لیکن میں نہ جاسکا، نہ اس کے جنازے میں شریک ہوسکا اور تجہیز و تکفین کا کام اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے سپرد کردیا، اس اندیشہ سے کہ امام صاحب کے درس کا کوئی حصہ چھوٹ نہ جائے جس پر ہمیشہ حسرت ہوتی رہے۔ناقل موطا یحییٰ بن یحییٰ اور اسباق کی پابندی ناقل موطا یحییٰ بن یحییٰ مدینہ منورہ میں امام مالک سے پڑھ رہے تھے ،ان کے علاوہ اور لوگ بھی امام کی خدمت میں فیض یاب ہورہے تھے کہ دفعۃ ہاتھی کے آنے کا شور و غل ہوا، چونکہ عرب میں ہاتھی کو نہایت تعجب کے ساتھ دیکھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے بعض عرب کے رہنے والے ہاتھی کے دیکھنے کو فخریہ بیان کرکے مبارکبادی کے خواستگار ہوتے ہیں ، اسلئے اکثر طلبہ امام کی مجلس کو چھوڑ کر ہاتھی کا تماشا دیکھنے کو دوڑ پڑے۔ مگر یحییٰ بن یحییٰ اپنی اسی ہیئت و حالت کے ساتھ بیٹھے ہوئے فیض حاصل کرنے میں مشغول رہے ،نہ کسی قسم کا اضطراب پیش آیا نہ کوئی حرکت بے ساختہ ان سے ظاہر ہوئی، امام صاحب اسی وقت سے ان کو ’’عاقل‘‘