اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ہوجائیں اس خیال کو شیطانی خیال سمجھنا ، اس پر حضرت تھانویؒ نے لکھا ہے۔ واقعی یہ حضرات بڑے حکیم ہیں، کیسی عجیب بات فرمائی ، ایک وقت میں قلب دوطرف متوجہ نہیںہوتا، پس ضروری کو غیر ضروری پر ترجیح دینا چاہئے۔ (الافاضات الیومیہ) پس زمانۂ طالب علمی میں علم ہی کے پیچھے لگارہے ، کوئی دوسرا مشغلہ نہ ہو۔ شغل علم میںیہ حالت رہے کہ چوں میر دمبتلا میرد چوں خیز د مبتلا خیز د۔۔اسلاف کا علم میں کامل انہماک ہمارے اسلاف واکابر کا علم میںکامل انہماک تھا ، ساری چیزوں سے یکسو ہوکر صرف اسی کی دھن میں مست تھے، علم کے ماوراء سے بے خبر تھے۔ امام محمدؒ کے حالات بیان کرتے ہوئے ان کے تلمیذ خاص محمدبن سماعہ فرماتے ہیں کہ امام محمدؒ کامطالعہ میں اس قدر انہماک ہوتا تھا کہ اگر کوئی شخص ان کو سلام کرتا تو انہماک اوربے خبری میںجواب دینے کے بجائے اس کیلئے دعا کرنے لگتے۔ آپ بیتی میں حضرت شیخ نے لکھا ہے کہ حضرت نانوتوی نوراللہ مرقدہٗ میں علمی انہماک اس درجہ کا تھا کہ اپنی طالب علمی کے زمانے میںایک جھلنگا پر پڑے رہتے تھے، روٹی ایک وقت پکواکر کئی کئی وقت تک ایسے ہی روکھے کھاتے رہتے تھے۔ حضرت مولانا یعقوب صاحب نے اپنے ملازم کو کہہ رکھاتھاکہ کھانے کے وقت ان کو سالن دیدیاکرو، بڑی دقت اور اصرار سے کبھی لے لیتے تھے۔ حضرت مولانا مسیح اللہ خانصاحب ؒ فرماتے تھے کہ میں دارالعلوم دیوبند میں تنقید وتبصرہ کے زمانے میں چارسال تک ایک ہی حجرہ میں رہا ، مدرسہ کے طلباء سے تو پہچان کیاہوتی، حجرہ کے طلباء کا بھی نام اور گاؤں نہیں جانتا تھا ،اگر کوئی طالب علم نام پوچھتا توبتلا دیتا، پھر دوسرا سوال کرتا تو کہتا کہ میں تعارف کیلئے نہیں آیاہوں پڑھتایا تنہا تفریح کرتا تھا ، یا مولانا مدنی ؒ اورمولانا سید اصغرحسین صاحب