اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
امام بخاریؒ سے پوچھا گیا حفظ کی دوا کیا ہے؟ تو فرمایا کتب بینی۔ حضرت اقدس تھانوی نوراللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں کہ مطالعہ کی مثال ایسی ہے جیسے کپڑا رنگنے کے لئے پہلے اس کو دھولیا جاتا ہے، پھر رنگ کے مٹکے میں ڈالا جاتا ہے، اگر پہلے دھویا نہ جائے تو کپڑے پر داغ پڑ جاتے ہیں، اسی طرح مطالعہ نہ کیا جائے تو مضمون اچھی طرح سمجھ میں نہیں آتا۔ نیز ایک جگہ فرمایا مطالعہ مفتاح استعداد یعنی استعداد کی کنجی ہے اسی کی برکت سے استعداد اور فہم پیدا ہوتا ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت)مطالعہ کا کیف اور اس کی لذت طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ روزانہ اسباق کا پابندی سے مطالعہ اپنے او پر لازم کرلے، اس کے علاوہ خارجی کتب کا مطالعہ بھی کرتا رہے، اس کے لئے کچھ صفحات کی ایک مقدار طے کرلے اور اس کو پورا کرنے پر مواظبت کرے، حتی الامکان ناغہ نہ ہونے دے، جب اس کی عادت ہوجائے گی تو علمی ذوق پیدا ہوگا، مطالعہ کرنے میں عجیب کیف اور لذت حاصل ہوگی ،پھر رات کے سناٹے میں جب لوگ سو رہے ہوں گے یہ طالب علم اپنی کتابیں لئے مطالعہ میں محو ہوگا اور کتاب کو حل کرنے کے در پے ہوگا اور مشکل عبارتیں بڑی محنت و مشقت اور کدو کاوش کے بعد جب حل ہوں گی تو اس پر اس کو جو فرحت حاصل ہوگی اور لذت و سرور کی جو کیفیت پیدا ہوگی وہ الفاظ سے بالاتر ہے، اس کو تو وہی جان سکتا ہے جس کو یہ لذت حاصل ہو۔ امام محمدؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ رات رات بھر مطالعہ کے لئے جاگتے تھے، ان کے سامنے کتابوں کے ڈھیر لگے ہوتے تھے ، جب ایک فن کی کتابوں سے طبیعت اکتا جاتی تو دوسرے فن کا مطالعہ شروع کردیتے تھے۔ جب آپ راتوں کو جاگتے اور کوئی مشکل مسئلہ حل ہوتا تو بڑے مسرت بھرے انداز میں فرماتے ،بھلا شاہزادوں کو یہ لذت کہاں نصیب ہوسکتی ہے؟