اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
بینی اندر خود علوم انبیاء بے کتاب و بے معید و استا حدیث میں ہے کہ عمل کی برکت سے حق تعالیٰ قلب میں وہ علوم ڈالتا ہے جو پہلے سے اس میں نہ تھے، اس لئے اگر انسان انسان بننا چاہتا ہے تو اولاً عالم بنے پھر عامل بنے، تب آخر میں علم لدنی کا وارث بنتا ہے، پس ابتدائی علم علم دراست ہے اور انتہائی علم علم وراثت ہے، یہ کتابوں کے درس و مطالعہ کا علم علم دراست ہے اور ان علوم پر عمل کے نتیجے میں جو علم حاصل ہوتا ہے وہ علم وراثت ہے، ’’ مَنْ عَمِلَ بِمَا عَلِمَ وَرَّثَہُ اللّٰہُ عِلْمَ مَالَمْ یَعْلَمْ‘‘ پس علم دراست کی عملی مشق سے پیداشدہ بصیرت و گہرائی علم وراثت ہے، مگر علم وراثت نصیب ہوتا ہے علم دراست ہی سے، یہ مدارس علم دراست سکھاتے ہیں اور علم وراثت کا راستہ واضح کرتے ہیں، اگر مدارس دینیہ نہ ہوں تو نہ علم دراست ملے نہ علم وراثت ۔ (ملخص از خطبات حکیم الاسلام)علم وہبی ولدنی کی مثال اللہ والوں کے علوم وہبی اور لدنی ہوتے ہیں اور اسی کو علم وراثت کہتے ہیں، اس کی مثال ایسی ہے کہ مثلاً سورج نظر آرہا ہے، اگر ہزاروں گھڑیاں متفق ہوں اس بات پر کہ اس وقت سورج چھپ گیا ،لیکن جو دیکھ رہا ہے کہ ابھی سورج موجود ہے وہ کہہ دیگا کہ سب گھڑیاں غلط ہیں، اگر اس سے دلیل پوچھی جائیگی تو کہہ دے گا کہ ہمیں خبر نہیں کہ کہاں اور کیا غلطی ہے مگر غلط ضرور ہے ،کیونکہ ہم تو سورج کا مشاہدہ کررہے ہیں، اسی طرح یہ حضرات گواس پر قادر نہ ہوں کہ مقدمات میں تعین کردیں کہ کونسے مقدمہ میں غلطی ہے مگر اتنا ضرور کہہ دیں گے کہ تمہاری دلیل میں غلطی ضرور ہے، یہ سب علوم غیر منصوصہ اور وہبی ہیں۔ (الافاضات)