اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
عباسی کے ہاتھ میں جب خلافت کی باگ ڈور آئی اور کوفہ کے قریب ہی ہاشمیہ میں اس نے قیام اختیار کیا، تو اس نے مدینہ منورہ سے اہل علم و فضل کو وہیں طلب کیا میں نے اس موقع کو غنیمت خیال کیا اور ان لوگوں کے پاس استفادہ کے لئے حاضر ہونے لگا، میرے گھر کے لوگ میرے کھانے کا انتظام یہ کردیتے تھے کہ چند روٹیاں ٹھوک لی جاتی تھیں اور دہی کے ساتھ بندہ کھا کر سویرے درس و افادہ کے حلقہ میں حاضر ہوجاتا ، لیکن جو اس انتظام میں رہتے تھے کہ ان کے لئے ہر یسہ، یا عصیدہ تیار ہولے تب اس کا ناشتہ کرکے جائیں گے، ظاہر ہے کہ ان کے وقت کا کافی حصہ اسی کی تیاری میں صرف ہوجاتا تھا، اسی لئے جو چیزیں مجھے معلوم ہوسکیں ان سے یہ عصیدہ اور ہریسہ والے حضرات محروم رہے۔ (حوالہ بالا)امام شافعیؒ اور علم کے لئے مشقتیں جھیلنا امام شافعیؒ اپنی ابتدائی طالب علمی کا حال اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں یتیم بچہ تھا، ماں نے مکتب بھیجا، مگر گھر میں اتنا بھی انتظام نہ تھا کہ میاں جی کی خدمت کی جاتی، خوش قسمتی سے میاں جی اس پر راضی ہوگئے کہ جب باہر جایا کریں گے تو میں لڑکوں کی نگرانی کیا کروں گا، اس طرح جب میرا قرآن ختم ہوگیا تو مسجد میں علماء کے حلقوں میں حاضری دینے لگا، جو بھی حدیث یا مسئلہ سن لیتا فوراً یاد ہوجاتا، میری ماں اس قدر غریب تھیں کہ کاغذ کی قیمت بھی نہیں دے سکتی تھیں، مجبوراً چکنی ہڈیاں ڈھونڈتا پھرتا اور کوئی مل جاتی تو اٹھا لیتا اور اس پر لکھنا شروع کردیتا، تحریر سے بھر جاتی اور جگہ باقی نہ رہتی تو اسے گھر کے ایک پرانے گھڑے میں احتیاط سے رکھ دیتا، اس طرح میری تعلیم چل رہی تھی۔ (جامع البیان)