اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
مَا اَکْثَرُ الْعِلْمِ وَمَا اَوْسَعُہٗ مَنْ ذَالَّذِیْ یَقْدِرُاَنْ یَّجْمَعُہٗ اِنْ کُنْتَ لَابُدَّلَہٗ طَالِبًا مُحَاوِلًا فَالْتَمِسْ اَنْفَعَہٗ ترجمہ ۔ علم کی کثرت ووسعت کا کیا ٹھکانا؟ کون اسے جمع کرسکتا ہے، جب علم حاصل کرنا ہے تو زیادہ سے زیادہ مفید علم کی تلاش کرو۔ (جامع البیان)علم کا انتخاب استاذ سے کروانا چاہیئے تعلیم المتعلم میں لکھا ہے کہ علم کا انتخاب خود اپنی رائے سے نہ کرے بلکہ استاذ ہی سے انتخاب کروانا چاہیئے، اس لئے کہ استاذ اپنے طویل تجربہ کی بناء پر بہت صحیح انتخاب کرے گا، جو شاگرد کی صلاحیت وقابلیت اور اس کے مذاق کے مطابق ہوگا۔ ہمارے شیخ برہان الدین صاحب ہدایہ فرماتے تھے کہ پہلے زمانے میں طلبہ اپنے پڑھنے پڑھانے کا معاملہ استاذ پر معلق رکھتے تھے ، جس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے تھے اورجب خود انتخاب کرنا شروع کردیا توعلم سے بھی محروم رہنے لگے، امام محمدابن اسماعیل بخاری نے امام محمد بن حسنؒ سے کتاب الصلوٰۃ پڑھنا شروع کیا تو امام محمدؒ نے فرمایا کہ تمہارے لئے علم حدیث کا پڑھنا مناسب اور موزوں ہے، کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تم کو اس علم سے مناسبت ہے۔ امام بخاری ؒ نے اپنے استاذ کا مشورہ قبول کیا اور علم حدیث کی تحصیل شروع کردی ،تو اللہ تعالیٰ نے امام بخاری کو علم حدیث کے اعلیٰ درجہ پر فائق کیا اوردنیا جانتی ہے کہ بخاری قدوۃ المحدثین اورامیر المومنین فی الحدیث کے نام سے مشہور ہوئے ،