اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
پانچواں ادب (الف) طالب علم اور تزکیۂ باطن دولت علم کے حصول کے لئے جس طرح ظاہری معاصی سے بچنا ضروری ہے، اسی طرح باطنی امراض سے بھی قلب کو پاک و صاف کرنا ناگزیر ہے، اس کے بغیر علم کا نور نہیں حاصل ہوسکتا۔ حضرت امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ اخلاق رذیلہ سے نفس کو پاک و صاف کرنا ایسا ہی ضروری ہے جیسا نماز کے لئے ظاہری اعضاء کو پاک کرنا، کیونکہ نماز جیسے ظاہری عبادت ہے ایسے ہی علم قلب کی اور باطن کی عبادت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’ لَاتَدْخُلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ کَلْبُٗ‘‘ ملائکہ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو اور قلب ملائکہ کا گھر ہے، ان کے ٹھہرنے اور اترنے کی جگہ ہے اور صفات رذیلہ جیسے غضب، شہوت ، کنیہ، حسد، بغض، عجب، کبر، خودبینی وغیرہ مثل کتوں کے ہیں، پس جب قلب میں اس قدر باطنی کتے ہوں تو ملائکہ کیسے داخل ہوںگے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ علم کا نوراللہ تعالیٰ ملائکہ کے واسطے سے ڈالتے ہیں، پس معلوم ہوا کہ علم کا نور حاصل کرنے کے لئے قلب کا تمام گندگیوں سے پاک و صاف ہونا ضروری ہے۔ (احیاء العلوم) اللہ تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے ’’وَذَرُوْاظَاہِرَ الْاِسْمِ وَ بَاطِنَہٗ‘‘ یعنی ظاہری اور باطنی سب گناہوں کو چھوڑ دو، جوارح کے گناہ بھی چھوڑ دو اور قلب کے بھی اور جوارح کو اعمال صالحہ سے اور قلب کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کرو، اسی کو صوفیائے کرام تعمیر الظاہروالباطن سے تعبیر کرتے ہیں، یہی تصوف و سلوک کی حقیقت ہے۔