اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
کے لئے اس سے بھی زیادہ غم کی کوئی بات ہوسکتی ہے کہ آج بائیس برس کے بعد اس کی تکبیر اولی فوت ہوگئی، دیکھا آپ نے یہ ہے اتباع سنت!حضرت شیخ الہند اور اتباع سنت شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیو بندی(جن کے بارے میں حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ لوگ ان کو شیخ الہند کہتے ہیں حالانکہ وہ شیخ العالم تھے) کے قدم ایک مرتبہ کثرت عبادت کی بناء پر ورم کرگئے، تو اس پر خوش ہوکر فرمایا کہ آج ایک سنت ’’حَتّٰی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاہٗ‘‘ ’ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کثرت قیام کی بناء پر ورم کر جایا کرتے تھے ‘‘ پر اتباع نصیب ہوا ہے۔ (ملفوظات فقیہ الامت)حضرت مولانا الیاس صاحب اور اتباع سنت حضرت مولانا الیاس صاحبؒ کو اتباع سنت کا جیسا اہتمام تھا اس کی نظیر اس زما نے میں ملنی مشکل ہے، ان کے اس اہتمام و التزام سے ائمہ سلف کی یاد تازہ ہوتی تھی، چھوٹی چھوٹی سنتوں کی تلاش اور تتبع پھر ان کی پابندی اور اشاعت کا شوق، چھوٹی اور جزئی سنت کو بھی عملاً بڑا اور اہم سمجھنا مولانا کا طبعی ذوق تھا، آخری دن جو زندگی کا مصروف ترین دن ہوتا ہے شیخ الحدیث مولانا زکریا کو بلا کر بڑے اہتمام سے فرمایا کہ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ احادیث سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات اور عادات و اخلاق کا تتبع کرکے ان کے پھیلانے کی جتنی سعی کرسکتے ہو کرتے رہو۔ محبت و اتباع کے غلبہ نے عبادات کے علاوہ عام عادات پر بھی اثر کیا تھا، عادات و طبعی امور میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت کو آپ کا جی چاہتا تھا، مرض الوفات کے درمیانی زمانے میں دو آدمیوں کی مدد سے مسجد میں نماز کے لئے آتے، چاہتے تھے کہ اس میں بھی وہی مسنون کیفیت ہو جو آنحضرت ؐ