اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
عزیز طلبہ ان پرعمل پیرا ہوکر اپنی طالب علمی کی زندگی کو کامیاب بناسکیں ، ان اوصاف وآداب سے قطع نظر کرکے نہ حقیقی علم کی دولت حاصل ہوسکتی ہے، نہ اخلاقی حالت سنور سکتی ہے۔پہلا ادب طالب علم۔ اور علم کی سچی طلب اور شوق حقیقی علم کی دولت حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلا ادب اور اولین شرط علم کی سچی طلب اورشوق ہے ، جب تک سچی طلب پیدا نہ ہو اور علم کی دھن نہ لگے ، علم کے پیچھے دیوانگی اور پروانہ وار وارفتگی کی کیفیت پیدا نہ ہو علم کا حصول نہیںہوسکتا،نری تمناؤں اور آرزوؤں سے کام نہیں بنتا، طلب صادق ضروری ہے ، اسی لئے حصول علم کیلئے طلب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، کسب کالفظ نہیں ہے، طلب کا مفہوم اور ہے کسب کا مفہوم اور ہے۔ طالب کے معنی یہ ہے کہ کام کی دل میں فکر ہو، بے فکری اور طلب دونوں جمع نہیں ہوسکتیں ،اس لئے دل میں فکر ولگن اور دھن ہو، ادھیڑبن سی لگ جائے ، جب تک مقصود حاصل نہ ہو برابر اس کی جستجو کرتارہے۔ چنانچہ حدیث میں فرمایا گیا ’’مَنْ خَرَجَ فِیْ طَلَبِ الْعِلْمِ فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَرْجِعَ‘‘ جو علم کی طلب میں نکلا تو وہ جب تک کہ واپس نہ آجائے اللہ کے راستے میں ہے ۔ اور علم حاصل کرنے والے کو’’طالب علم‘‘ سے موسوم کیا گیا پس فرمایا ’’مَرْحَبًا بِطَالِبِ الْعِلْمِ‘‘ ۔ طالب کسے کہتے ہیں ؟ طالب کا مفہوم ہے علم کی طلب اور جستجو کرنے والا شئی مطلوب میں انہماک تام رکھنے والا ، علم کے علاوہ تمام چیزوں سے علیحدہ اور