اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
مخلوق سے بے نیازی علم اور اہل علم کی عزت و عظمت کا باعث ہے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے’’ اہل علم اپنے علم کی عزت کرتے اور اسے اس کی جگہ رکھتے تو اپنے زمانے کے سردار بن جاتے، مگر انہوں نے علم کی قدر نہ جانی اور اسے دنیا والوں کے قدموں پر ڈال دیا تاکہ ان کی دنیا میں سے کچھ حاصل کرلیں نتیجہ یہ نکلا کہ ذلیل و خوار ہوگئے۔ (جامع بیان العلم) ابو حازم کا بیان ہے کہ خلیفہ ہشام بن عبدالملک مدینے آیا، تو دربار میں فقہاء جمع ہوئے ،زہر ی میرے قریب بیٹھے تھے ، کہنے لگے کوئی اچھی بات سنائیے، میں نے کہا تو سنو! اگلے فقہاء و علماء اپنے علم کے مقابلہ میں دنیا داروں کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور ان سے مستغنی رہا کرتے تھے، اسی لئے دنیا داران کی قدر کرتے اور ان سے تقرب میں اپنی عزت سمجھتے تھے، مگر آج فقہاء و علماء کی حالت دوسری ہے، انہوں نے دنیا کی طمع میں اپنے علم کو دنیا داروں کی خوشامد و خدمت پر وقف کردیا ہے، دنیا داروں نے خود علماء میں علم کی یہ بے قدری دیکھی تو خود بھی علم کو حقیر سمجھنے لگے اور اپنی دنیا پر اور زیادہ فریفتہ ہوگئے۔ محمد بن سحنون نے بیان کیا، ایک عالم تھا، اس کا بھائی روز رات کو چھپ کر قاضی اور والی (گورنر) کے سلام کو جایا کرتا تھا، عالم کو خبر ہوئی تو بھائی کو لکھا ’’جو تجھے دن کو دیکھتا ہے وہی رات کو بھی دیکھتا ہے، تیرے نام یہ میری آخری تحریر ہے‘‘ محمد کہتے ہیں کہ میرے والد سحنون یہ واقعہ سن کر خوش ہوئے اور فرمایا عالم کے لئے یہ کس قدر معیوب ہے کہ لوگ اس کے دروازے پر پہنچیں اور معلوم ہو کہ وہ حاکم کی ڈیوڑھی پر حاضری دینے گیا ہے۔ (جامع بیان العلم) اسماعیل بن علیہ نے جب تحصیل داری کا منصب قبول کرلیا تو عبداللہ بن مبارک نے جواب میں یہ شعر لکھ بھیجے ؎