اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
بڑا دخل ہے، صحابہ کا علم اسی طریق پر تھا، یہی وجہ ہے کہ ان میں ایک ’’قل ہواللہ احد‘‘ پڑھنے والا صحابی جس خوبی اور پختگی سے توحید اسلام سمجھا ہوا تھا آج تیس پاروں کا حافظ بھی اس کا عشر عشیر سمجھا ہوا نہیں ہے۔ ایک متعلم جب ا سطرح صحبت وتربیت کے ساتھ علم سیکھ لیتا ہے تو ا سکا قلیل علم بھی قلیل نہیں ہوتا، اب اس کا نام علم نہیں رہتا، بلکہ قرآنی الفاظ میں شاید حکمت ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم میں جس حکمت کو لقمانؑ کا علم بتلایا گیا ہے ’’وَلَقَدْآتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ‘‘ ہم نے لقمانؑ کو حکمت مرحمت فرمائی تھی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ پڑھ لیا کرتے تھے ’’وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ میں اسی طرف اشارہ ہے، گو عام مفسرین نے حکمت کی تفسیر سنت سے کی ہے، مگر یہاں اور بھی بہت اقوال ہیں، منجملہ ان کے یہ کہ حکمت کتاب کے علاوہ دوسری چیز ہوتی ہے مگر کتاب کی شکل میں کوئی دوسری کتاب نہیں ہوتی، بلکہ اس کتاب کو صحبت نبیؐ میں پڑھنے کے وہ اثرات ہوتے ہیں جو مستعد شخص کی ذہنیت میں ایسی صلاحیت پیدا کردیتے ہیں کہ صحیح فہم و فراست ملکۂ نفس بن جاتی ہے ،اس کے خیالات و عقائد خود کو پاکیزہ اور دوسروں کو بھی پاکیزہ بنا دیتے ہیں، غلط بات کو اس کا ذوق قبول نہیں کرتا اور صحیح حقیقت قبول کرنے میں کچھ تردد نہیں رہتا۔(مستفاذ از ترجمان السنتہ)حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بعثت قرآن کریم میں بعثت نبوی کے چار مقاصد بیان کئے گئے ہیں، ارشاد باری عزاسمہ ہے،’’ہُوَالَّذَیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًامِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ اللہ نے رسول بھیجا، اس کی کیا شان