اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ضروری ہے، جن کو ما قبل کے صفحات میں قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور تیرہ میں اس کا احصاء کیا ہے، ایسے ہی کچھ باطنی آداب کا اختیار کرنا اور ان کو بروئے کار لانا بھی ناگزیر ہے ،ان باطنی آداب کو آئندہ صفحات میں بیان کیا جارہا ہے اور آٹھ میں ان کا احصاء کیا گیا ہے۔پہلا ادب طالب علم اور حسن نیت تحصیل علم کے باطنی آداب میں سب سے مہتم بالشان اور اہم امر یہ ہے کہ طالب علم سب سے پہلے اپنی نیت کو درست کرے اور طلب علم کے صحیح مقصد کو مستحضر رکھے، کیونکہ ہر عمل نیت کی درستگی سے ہی عنداللہ عمل بنتا ہے اور مقبول ہوتا ہے۔ پس علم دین بھی جب صحیح نیت سے حاصل کیا جاتا ہے تو قرب خداوندی کا ذریعہ اور باعث نجات بنتا ہے اور جب نیت فاسد ہوتی ہے تو یہی علم و بال جان اور باعث ضلالت بنتا ہے۔ عبداللہ بن مبارکؒ کا قول ہے علم نیت سے شروع ہوتا ہے ،پھر بتوجہ سماعت ہے پھر فہم ہے، پھر حفظ ہے، پھر عمل ہے، پھر علم کی ترویج ہے۔ (جامع) حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ علم کی طلب اور اس کی نشرو اشاعت اچھی چیز ہے اگر اس میں نیت اچھی ہو۔ ؎ جزیاد دوست ہر چہ کنی عمر ضائع ست جز سر عشق ہر چہ بخوانی بطالت ست حضرت امام ابو حنیفہؒ سے ان کے صاحبزادے نے کہا کہ آپ خود مناظرہ کرتے ہیں اور ہم کو منع فرماتے ہیں، تو کیا ہی عمدہ جواب دیا کہ ہم مناظرہ اس لئے کرتے ہیں کہ ہم حق بات کو مان لیں گے اور تم میں یہ بات نہیں ہے، لہٰذا