اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
عمل کرنا، پھر اس کی اشاعت کرنا۔ ایک حکیم نے اپنے لڑکے کو نصیحت کی کہ حسن کلام کی طرح حسن استماع بھی سیکھنے کی چیز ہے، حسن استماع یہ ہے کہ متکلم کو اپنی بات پوری کرنے کی مہلت دے اور اپنے منہ اور اپنی نگاہ سے اس کی طرف متوجہ رہے اور کوئی بات پہلے سے معلوم بھی ہو تو دخل نہ دے خاموشی سے سنے۔ (تحفۃ المتعلمین) بخاری شریف کی روایت ہے: عَنْ جَرِیْرٍؓ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ فِی حَجَّۃِ الْوِدَاعِ اِسْتَنْصِتِ النَّاسَ رواہ البخاری جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ کے وقت حضرت جریر ؓ سے فرمایا کہ لوگوں کو چپ کرو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ استاذ کی تقریر کے وقت بالکل خاموش اور متوجہ رہنا چاہئے کسی سے بات نہ کرے، کسی کی طرف التفات نہ کرے۔ (اصلاح انقلاب امت) اسلئے طلبہ کو چاہئے کہ علم و حکمت کی باتیں نہایت غور سے اور عظمت کے ساتھ سنیں، اگرچہ ایک مسئلہ علمی کو ایک ہزار مرتبہ سننا پڑے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جو ایک ہزار مرتبہ سننے کے بعد بھی علم کی وہی عظمت نہ کرے جو پہلی بار کی تھی تو وہ شخص علم کا اہل نہیں۔ درس گاہ نبوی کے وقار و تمکنت کا یہ حال تھا کہ شرکائے مجلس ہمہ تن گوش بنے رہتے تھے۔ حضرت اسامہ ابن شریک کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ،اس وقت صحابہؓ آپؐ کے اردگرد یوں بیٹھے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہیں۔ (خیرالقرون کی درسگاہیں)اہم مضامین کو نوٹ کرنا اگر ہوسکے تو استاذ کی تقریر کو من و عن نوٹ کرے ورنہ کم از کم اہم مضامین کو