اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
الْعِلْمَ لِیُحْيَ بِہٖ الْاِسْلَامَ فَبَیْنَہٗ وَبَیْنَ النَّبِیِّیْنَ دَرَجَۃٌ موت آجائے اوراس طالب علم کا مقصد اسلام کو زندہ کرنا ہوتو اس کے اور انبیاء کے درمیان ایک درجہ ہے، یعنی انبیاء کے مقام اور اس کے مقام میں ایک درجہ کا فصل ہے۔ علامہ شامی ابن عابدین لکھتے ہیں کہ جس شخص کی موت طالبعلمی کے زمانے میںہو اسے شہادت کی موت نصیب ہوگی، اگرچہ علم کے ساتھ پورا انہماک نہ ہو، صرف کسی درجہ کااشغال ہو کہ ایک دن میں صرف ایک ہی درس لیتاہوتووہ بھی اس فضیلت میں شامل ہے ، پس فرمایا اِنْ کَانَ لَہٗ اِشْتِغَالٌ بِہٖ تَالِیْفًااَوْتَدْرِیْساً اَوْحُضُوْراً فِیْمَا یَظْہَرُوَلَوْکُلَّ یَوْمٍ دَرْساً وَلَیْسَ الْمُرَادُ اَلْاِنْھِمَاکُ (شامی) علم کے ساتھ اشغال کا مفہوم یہ ہے کہ خواہ تالیف کا سلسلہ ہویا تدریس کا یا صرف کسی درس میںشامل ہوتا ہو اگرچہ دن بھرمیں ایک ہی درس ہو یعنی انہماک مرادنہیں۔ (کشکول معرفت)قرون اولیٰ میں علمی شوق و ولولہ اور تحصیل علم کا طریق کار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود میں صحابہ کا اور ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین کا عمومی مزاج تحصیل علم دین کا تھا، یہ حضرات چاہے شہری ہوں یا دیہاتی ، زراعت پیشہ ہوں یا تجارت پیشہ امیر ہوں یا غریب ، مرد ہوں یا عورت باوجود اپنے دن بھر کے کاروباری وغیرہ مشاغل کے تحصیل علم کو نماز کی طرح فرض و ضروری سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک دین کی ضرورت کا احساس اور سیکھنے سکھانے کا فکر ہر چیز سے مقدم تھا، یہی وجہ ہے کہ ان میں کوئی جاہل نہ تھا، ہر شخص اپنی جگہ پر عالم یا طالب علم تھا، حضرت عبداللہ بن مسعود صحابہ کی شان میں فرماتے ہیں۔