اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
صاف رکھے ، اور یہ خیال کرے کہ ان سے علمی ودینی نفع حاصل ہورہا ہے ، اس لئے اپنے ظاہر سے بھی کوئی حرکت خلاف ادب واحترام ظاہرنہ ہو نے دے کہ اس سے استاذ کے دل کے اندر تکدروانقباض پیدا ہوگا اور نفع کادروازہ بندہوجائیگا ۔ اگر استاذ کے کسی متعلق سے کوئی نامناسب بات پیش آجائے توبھی یہ سمجھ کر درگذر کردے کہ مجھ کو ان سے دینی نفع پہنچ رہا ہے۔ حضرت تھانویؒ نے ایک شخص سے کہا کہ اگر میں جانتا کہ آپ حضرت حاجی صاحب علیہ الرحمہ سے بیعت ہیں، تو نامناسب بات بھی نہ کہتا ، استاذ کادرجہ توپیر سے زیادہ ہے، اس کا تو اور پاس ولحاظ کرنا چاہیئے۔استاذ پیر اور باپ کے درجات میں فرق مراتب والدین ، استاذ اورپیر کے رتبہ کی ترتیب میں حضرت اقدس تھانوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ مرتبہ باپ کا ہے ، بعد کو استاذ ظاہری کا ، پھر پیر کا ۔ باپ موجدمادہ ہے ، استاذ مادے کی ترتیب دینے والا ہے اور پیر مادۂ مرتبہ پر نقشہ بھرنے والا اور آراستہ کرنے والا ہے اورظاہر ہے کہ موجد مادہ کامرتبہ زیادہ ہونا چاہیئے۔بے ادبی وگستاخی کا انجام استاذ کے ساتھ بے ادبی سے پیش آنے والا اور اس کی شان میں گستاخی کرنے والا کبھی حقیقی علم کی دولت سے بہرہ ور نہیںہوسکتا ، یاتو علم سے محروم ہوجاتاہے ، یا اس کا علم نفع بخش نہیںہوتا ، عام طورپر ضائع ہوجاتا ہے۔ حضرت اقدس تھانوی قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ مقبولان الٰہی یا اپنے محسن کی شان میں جوگستاخ ہوتاہے ، اس کی عقل مسخ ہوجاتی ہے ۔ پھر ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا محمداسحق صاحب کے ایک شاگرد طالب علم