اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
عِلِّیِّیْنَ ‘‘ ان کاتو مقام بہت ہی اونچا ہے ۔ وہ تو اعلیٰ علیین میںہیں۔ (درمختار ۱/۵)اسلاف کی طالب علمی او رہمارا حال آج کل ہمارے طلبہ کی علمی افسردگی ، عزائم وھمم کی پژمردگی اورعملی واخلاقی حالت دیکھ کر بڑارنج وصدمہ ہوتا ہے کہ اس قدر علمی واخلاقی انحطاط وتنزل کیوں ہے ؟ جبکہ انہی درسگاہوںسے تعلیم حاصل کرکے ہمارے اسلاف واکابرابھی ماضی قریب میںآسمانِ علم وہدایت کے آفتاب وماہتاب بن کر نکلے ہیں، حالانکہ ایک طرف تحصیل علم کے اسباب ووسائل پہلے کے مقابلہ میںآج بہت زیادہ فراہم ہیں، کتابوں کوہی لے لیجئے مختلف علوم وفنون کی درسی وغیر درسی کتابوں کے کتب خانے بھرے پڑے ہیں ، جس فن کی اور جس موضوع پرکتاب نکالنی ہو ایک نہیںکئی ایک نکال لیجئے، اسی طرح اوربھی مختلف قسم کی سہولتیں پہلے کی بہ نسبت بہت زیادہ فراہم ہیں ، لیکن اس قدر فراوانیٔ اسباب کے باوجود دوسری طرف طلبہ کایہ حال ہے کہ پورا سال گذرجاتا ہے ، کتاب سے کوئی مناسبت پیدا نہیںہوتی، عبارت تک صحیح نہیںپڑھ پاتے، املاء تک درست نہیں، بعض کا تو یہ حال ہے کہ کتاب کا نام تک صحیح نہیں بتاپاتے۔ ہمارے اسلاف کے دور میںاس قدر اسباب کی فراوانی اورسہولتیں میسر نہیںتھیں بلکہ یہ حال تھا ، حضرت تھانویؒ کے مواعظ میںلکھاہے کہ حضرت شاہ اسحق صاحب کے یہاں بخاری کادرس ہوتا تھا ، بائیس طلبہ شریک درس تھے، اوربخاری کا صرف ایک نسخہ تھا سب اس سے نقل کرکے پڑھتے تھے، اندازہ لگایئے کہاںوہ دور اورکہاں آج کااسباب ووسائل والادور! اس کے باوجود علمی معیار بہت اعلیٰ پیمانہ پرہوتاتھا اورطالب علمی میںہی