اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
رکھنے کی بدولت عطافرمایا ہے۔ (اشرف السوانح) حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جو کچھ بھی حاصل ہوا ہے اساتذہ کے ادب کی برکت سے حاصل ہوا ہے۔ چنانچہ آپ نے اگرکسی سے فارسی کتاب کا بھی سبق پڑھاتھا ، اس کا بھی ادب کرتے تھے۔ نیز آپ کاارشاد ہے۔ عادۃ اللہ جاری ہے کہ اساتذہ کی بے ادبی سے علم نہیں حاصل ہوتا۔ مَنْ لَاَادَبَ لَہٗ لَاعِلْمَ لَہٗ محمود غزنوی کے والد کا نام سبکتگین تھا، یہ معمولی درجہ کا سپاہی تھا، ایک دن اس کے یہاں ایک عالم مہمان ہوئے، تو اس نے اس عالم کا بہت اکرام کیا، اس کے احترام میںیہ سات قدم پیچھے چلتا تھا،اس اکرام واحترام کا اللہ تعالیٰ نے یہ بدلہ دیا کہ بادشاہت ان کے گھرمیں آئی اور سات پشتوں تک یہ بادشاہت کرتے رہے۔ (ملفوظات فقیہ الامت) اوریہ تو مشہور مثل ہے باادب بانصیب بے ادب بے نصیب۔استاذ اگرکسی پر ناراض ہوتو اس کو خوش کرنا چاہیے جس طالب علم نے محض محنت ہی محنت کی ہو مگر اساتذہ کوراضی نہ رکھا ہو، تجربہ کرلیا جاوے کہ اس کو حقیقی علم ہرگز حاصل نہ ہوگا۔ نیز ارشاد فرمایا فہم سلیم اور تفقہ فی الدین اس کو حاصل ہوتاہے جس نے توجہ سے پڑھا ہو اور اساتذہ کوراضی رکھا ہو۔ تجربہ سے یہ معلوم ہوا کہ استاذ کا دل جس قدرخوش رکھا جائیگا ، اس قدرعلم میں برکت ہوگی۔ (الافاضات الیومیہ) حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ تورات کا ایک نسخہ جناب رسول