اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
گھرسے جب طلب حدیث میںنکلا تو سات سال تک سفر ہی میں رہا ، کہتے تھے کہ شروع میںکتنے میل چلا،اس کا خیال رکھا تھا،تین ہزار میل تک تو گنتارہا ،لیکن پھر گننا چھوڑدیا،پیدل کتنی لمبی لمبی مسافتیں اس راہ میںانہوںنے طے کی تھیں، اس کا اندازہ خود انہی کے بیان سے کیجئے۔ فرماتے ہیں ، خَرَجْتُ مِنَ الْبَحْرَیْنِ اِلٰی مِصْرَمَا شِیًاثُمَّ اِلٰی الرَّمْلَۃِ مَاشِیًا ثُمَّ اِلٰی طُرْطُوْسَ وَلِی عِشْرُوْنَ سَنَۃً بحرین سے مصر پیدل گیا، پھر رملہ اور رملہ سے طرطوس کا سفر بھی پیدل ہی کیا ، اس وقت میری عمر بیس سال کی تھی۔ اطلس اٹھاکر دیکھئے اور اندازہ کیجئے کہ بحرین (عرب) سے مصر، مصر سے رملہ (فلسطین) اور رملہ سے طرطوس کا فاصلہ کتنے ہزاروں میلوں کا ہے، خدا ہی جانتا ہے کہ اس قسم کے بے سنگ ومیل والے سفر میںکن کن حالات سے گذرنا پڑا ہوگا۔ (تدوین)امام ابو یوسفؒ اور علم کی خاطر مشقتیں جھیلنا امام ابو یوسف ؒ پر ایک زمانہ وہ بھی گذرا ہے کہ کھانے کو جب کچھ نہ رہ گیا تو سسرال کے گھر کے چھپر کی کڑی نکال کر بازار بھیجی تاکہ جو پیسے اس سے حاصل ہوں ان سے خوراک کاسامان کیا جائے۔ حافظ ابو عمرو ابن عبدالبر نے امام ابو یوسفؒ کا ایک لطیفہ نقل کیا ہے، خود فرماتے تھے کہ میرے ساتھ پڑھنے والوں کی یوں تو کافی تعداد تھی، لیکن بھائی! جس بیچارے کے دل کی دباغت دہی سے کی گئی تھی نفع اسی نے اٹھایا۔ پھر خود ہی دل کی اس دباغت کا مطلب بیان کرتے کہ ابوالعباس (سفاح)