اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی دامت برکاتہم لکھتے ہیں کہ حضرت استاذی مفتی سعید احمد صاحب محدث لکھنوی نے احقر سے اپنا حال بتایا کہ سبق کے بعد جب کوئی طالب علم مجھے تکرار کے لئے نہ ملتا تو میں دیوار کے سامنے بیٹھ جاتا اور دیوار کو مخاطب بنا کر سبق کا تکرار کرتا اور یہ فرض کرلیتا کہ میرے مخاطب نے ابھی بات نہیں سمجھی، اس لئے پھر اسی کو کہتا، اس طرح کئی بار کہتا،یہاں تک کہ مجھے ازبر ہوجاتا ۔ہمارے اسلاف کا تکرار و علمی مذاکرہ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ بسا اوقات ہم ساٹھ ساٹھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں رہا کرتے تھے، آپؐ ہم سے حدیث بیان کرتے تھے، آپؐ کے تشریف لے جانے کے بعد ہم لوگ آپس میں ان حدیثوں کا مذاکرہ و مراجعہ کیا کرتے تھے اور اس حال میں مجلس مذاکرہ سے اٹھتے تھے کہ گویا وہ حدیثیں ہمارے دلوں میں پودے کی طرح جڑ پکڑ گئی ہیں۔ علی بن الحسن بن شقیق راوی ہیں کہ ایک رات میں عشاء کی نماز پڑھ کر حضرت عبداللہ بن مبارک کے ساتھ مسجد سے باہر نکلا، شدید سردی کی رات تھی دروازے پر پہنچ کر ابن مبارک نے ایک حدیث کا ذکر چھیڑاا ور ہم دونوں میں اس حدیث پر برابر مذاکرہ و مباحثہ ہوتا رہا، یہاں تک کہ موذن نے آکر فجر کی اذان دیدی۔(تذکرۃ الحفاظ) اصمعی سے پوچھا گیا آپ نے یہ سب علم کیونکر محفوظ رکھا؟ حالاں کہ آپ کے ساتھی بھول گئے، کہنے لگے میرے ساتھیوں نے علم کو حاصل کرنے کے بعد اس کو چھوڑ دیا اور میں برابر اس کا چرچا کرتا رہا۔ پہلے دور کے طلبہ میں مذاکرہ و تکرار کا عام معمول تھا، جب موقع ملا حدیث کا