اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
حصہ جوارح سے تعلق رکھتا ہے وہ جوارح کی حرکت ہی سے حاصل ہوگا ، کچھ حصہ قلب سے تعلق رکھتا ہے، وہ قلب سے قلب میں منتقل ہوسکتا ہے، کچھ حصہ ذہن سے وہ بیشک کتابوں کے صفحات سے حاصل کیا جاسکتا ہے، اس مضمون کو حضرت مولانا نے ایک مرتبہ اس طرح بیان فرمایا۔ انسان کا ہر عضو ایک خاص وظیفہ کے لئے مخصوص ہے، آنکھ سے دیکھنے کا کام لیتے ہیں، اور اس کام کے لئے وہ مجبور ہے، اس سے سننے کا کام نہیں لیا جاسکتا، اسی طرح بیرونی ماحول کا احساس دل کا کام ہے، دل جس چیز کا احساس کرتا ہے دماغ کا کام اس کی تشکیل کرنا ہے، دماغ دل کے ماتحت ہے اور دل میں احساس ماحول سے پیدا ہوتا ہے، دماغ کی تشکیل کا نام علم ہے ،دماغ اسی وقت صحیح تشکیل کرے گا یعنی علم حاصل کریگا جب دل صحیح احساس رکھتا ہو اور یہ احساس جامد کتابوں کی صحبت سے نہیں پیدا ہوسکتا، یہ تو عمل سے ہوگا، میں یہ نہیں کہتا کہ مدرسے بند کردیے جائیں، مدرسے تعلیم کی تکمیل کے لئے ہیں، لیکن ابتداء کے لئے موزوں نہیں۔ حضرت کے اس بیان پر مولانا علی میاں صاحبؒ لکھتے ہیں کہ ’’یہ علم و تعلم کے متعلق ایک ایسا علمی مدلل اور محققانہ بیان اور ایک ایسی گہری تقریر ہے جس کو علمی طور پر اہل علم کو اپنے بحث و نظر اور تلاش و تحقیق کا موضوع بنانا چاہئیے، مولانا کی دعوت کا یہ تعلیمی جزو ایسا اہم اور ایک ایسا انقلاب آفریں نظریۂ تعلم ہے جس پر ہمارے تعلیمی اداروں اور اہل علم کو سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرنا چاہئے تھا اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے تھا۔(دینی دعوت)تبلیغی نقل و حرکت موجودہ فتنوں کی سرکوبی اور امراض کا علاج ہے علم کی ترقی کے لئے یہ دعوت گویا شرط کا درجہ رکھتی ہے، حضرت مولانا الیاس صاحبؒ کے ملفوظات میں ہے۔