اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
میں حاصل کئے ہیں، ان کا گویا سال بھر میں دور اور ایک عملی مشق ہوجائے گی اور سال بھر میں عمومی اختلاط سے نفس کی بہترین اصلاح بھی ہوگی، جس پر آپ کی اگلی زندگی کی عمارت کھڑی ہوگی۔ کیونکہ یہ دعوت و تبلیغ کی مبارک محنت صحیح اصول و آداب کے ساتھ بقول حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اصلاح نفس کے چاروں طریقوں کی جامع ہے۔دعوت کی مبارک محنت سے علم و ذکر کا وجود علم و ذکر پوری شریعت کا سر چشمہ ہے، انہی کے ذریعہ دین کی فضا صحیح معنوں میں بنتی ہے، لیکن ان دونوں کے صحیح معنوں میں وجود میں آنے میں دعوت کی محنت کو بڑا دخل ہے۔ داعی کبیر حضرت مولانا سعید احمد خاں صاحبؒ کا ایک مکتوب ہے۔ ’’ آج کل مدارس جو علم کے مراکز تھے، اور جن سے دنیا سیراب ہورہی تھی، اور اللہ کو پہچان رہے تھے، دعوت کی کمی کی وجہ سے مختلف قسم کے نرغوں میں آگئے اور حکومتیں ان پر ہاتھ ڈالنے لگیں اور یہ سنت خداوندی ہے کہ جب دین کے شعبوں سے للہیت ، اخلاص اور تواضع نکل جاتے ہیں تو بے روح ہوجانے کی وجہ سے حکومتوں کی تحویل میں دیئے جاتے ہیںاور دینی نظام دنیا سے بدل جاتا ہے ،ا س طرح پورے عالم میں عام طور سے مدارس کا یہی حال ہورہا ہے، عربی ممالک میں تو دینی مدارس کا نام و نشان باقی نہیں رہا کہ جس میں خالص دین پڑھایا جاتا ہو اور تربیت دینی ہوتی ہو، حق تعالیٰ اس دعوت والی عالی محنت کے ذریعہ مدارس و مراکز ذکر کو زندہ فرمائے اور تقویت عطا فرمائے۔ علم و ذکرہی اصل چیز ہے جو پورے دین کو وجود میں لاتے ہیں اور مسلمانوں کوصحیح اسلام پر چلاتے ہیں، مگر علم و ذکر