اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
کیا جاوے اور نامرضیات سے بچا جاوے، سو میں اس لئے پڑھتا ہوں تاکہ اس کی مرضیات و نامرضیات کی اطلاع ہو، بادشاہ سن کر خوش ہوا اور ظاہر کیا کہ میں بادشاہ ہوں اور میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ ا س مدرسہ کو توڑ دونگا، مگر تمہاری وجہ سے یہ مدرسہ رہ گیا، یہی طالب علم بعد میں جاکر امام غزالی کے نام سے مشہور ہوئے اور زبردست علمی خدمات انجام دیں۔ (افادات حکیم الامت)حسن نیت کا ثمرہ موطا امام مالک کے راوی یحییٰ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان امام مالک کے پاس حدیث پڑھنے آیا تھا، پھر اس کی وفات ہوگئی تو علماء مدینہ اس کے جنازے میں حاضر ہوئے ،حضرت ربیعہ نے اپنے ہاتھ سے اس کی تجہیز و تکفین کی، اس کے بعد علماء مدینہ میں سے کسی نے اس کو خواب میں دیکھا کہ بہت اچھی حالت میں ہے، انہوں نے حال پوچھا تو اس نوجوان نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری مغفرت کردی اور فرشتوں سے فرمایا کہ میرے اس بندے کی نیت درجۂ علماء تک پہنچنے کی تھی، لہٰذا اس کو وہاں پہنچا دو، سو میں ان کے ساتھ ہوں اور علماء جس کے منتظر ہیں میں بھی اس کا منتظر ہوں، خواب دیکھنے والے نے پوچھا کہ علماء کس چیز کے منتظر ہیں؟ اس نے کہا کہ قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے گنہگاروں کی شفاعت کے۔ (تحفۃ المتعلمین) حضرت مولانا مسیح اللہ خانصاحبؒ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں امتحان کے نمبرات دیکھنے نہیں جاتا تھا، سوچتا کہ اللہ کے لئے پڑھ رہاہوں تو نمبرات کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے اساتذہ کے دل میں ڈال دیا تھا کہ ہر استاذ درس گاہ میں خود ہی بتلا دیتے کہ مسیح اللہ! تمہارا ہمارے پاس سب طلبہ سے زیادہ نمبر ہے۔