اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
تزکیۂ باطن کی اہمیت دنیا اور دنیا کی ہر چیز انساں کے لئے بنائی گئی ہے کہ ایک چیز بھی نہ ہو تو کسی نہ کسی انسانی ضرورت میں حرج واقع ہوجائے گا ،مگر انسان دنیا کی کسی چیز کے لئے بھی نہیں بنایا گیا کہ انسان معدوم ہوجائے تو کسی چیز کا کوئی بھی حرج و نقصان نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح اصطبل اور گھاس دانہ کا تمامی سامان گھوڑے کے لئے ہے، مگر گھوڑا صرف آقاکی سواری کے لئے ،اسی طرح تمامی کائنات زمین وآسمان، شجر و حجر ، نباتات و جمادات سب انساں کی راحت کے لئے ہے اور انسان محض اپنے خالق برتر کی عبادت و غلامی کے لئے ہے اور عبادت کے لئے ضرورت ہے دو چیز کی، ایک طرف عبادت سے واقفیت جس کا نام علم دین ہے ،دوم عبادت سے دلچسپی اور شوق و رغبت جس کا نام تزکیۂ باطن اور عشق و محبت ہے، پس اول کا حصول بواسطۂ درس وتدریس مدارس علمیہ میں ہوگا اور شریعت نام رکھا جائے گا دوسرے کی تحصیل اہل اللہ کی جوتیاں اٹھانے سے خانقاہوں میں ہوگی، جس کو طریقت کہاجائے گا اور وہی شریعت کی روح و مغز اور اصل الاصول ہے، کہ اس کے بغیر باوجود علم کے عمل ہی نہ ہوسکے گا ، یا ہوگا تو بارآور اورمثمر نہ ہوگا اور بارآور بھی ہوا تو بے مزہ او ر عارضی و ناپائدار ہوگا، جس کا خلاصہ یہ ہوا کہ علم بلکہ انسانی زندگی کا مقصود اعظم یہی تعلق مع اللہ ہے جو محرک ہوتا ہے علم پر عمل کا اور احکم الحاکمین کی طاعت و عبادت کا۔ (تذکرۃ الخلیل)حکمت کی ایک عمدہ تفسیر ظاہری علوم کو حاصل کرلینے کے بعد باطنی اصلاح کے لئے کسی شیخ کی صحبت اختیار کرنا بہت ضروری ہے، اسی صحبت و تربیت سے علم میں رسوخ اور قلب میں انشراح و یقین پیدا ہوتا ہے ، رسوخ علم میں صحبت و ترتیب اور ملازمت شیخ کو