اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
کسی دانا کا قول ہے ’’اَلْعُقُوْلُ مَوَاھِبُ وَالْعُلُوْمُ مَکَاسِبُ‘‘ عقل وہبی اور علم کسبی ہے، جس قدر علم کیلئے کسب اور جدوجہد ہوتی رہے گی اسی کے بقدر ترقی ہوتی رہے گی۔ اس لئے بلند حوصلوں کے ساتھ علم کے پیچھے محنت اور جدوجہد کرتے رہیں ، اس طرح بادیہ پیمائی کرتے کرتے کسی نہ کسی وقت تومنزل پر پہنچ ہی جائیں گے۔ ؎ مل ہی جائیگی کبھی منزل لیلیٰ اقبال کچھ دن اور بھی باد یہ پیمائی کرشیخ سعدیؒ کی ابتدائی حالت شیخ سعدیؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے علم کاجوداعیہ پیدا ہوا اس کا سبب یہ ہوا کہ آپ ایک مرتبہ اپنی بیوی کے ساتھ کھانا کھارہے تھے ، بیوی کسی بات پر ناراض ہوگئی، تو جس چمچہ سے وہ دال نکال رہی تھی اسی سے مارنے لگی آپ کے دل میں یہ بات آئی کہ اگر میرے پاس علم ہوتا تو اس چمچہ کا مارنہ کھاتا، چنانچہ اسی وقت رخت سفر باندھا اور بغداد جاکر تحصیل علم میںلگ گئے، لیکن چونکہ عمر بڑی تھی اور زبان بھی موٹی ہوچکی تھی ، اس لئے علم حاصل کرنے میں زبان چلتی نہیںتھی ، توبچے ان پر ہنستے اور مذاق اڑاتے تھے۔ ایک مرتبہ پریشان ہوکر اور علم سے مایوس ہوکر یہ طے کرلیا کہ چلو اب ڈوب مریں ، پس اس ارادے سے ایک کنویں پرپہنچے تو کنویں میں ایک تختہ تیرتا ہوا دیکھا ،جس پر گڈھے پڑچکے تھے ، پوچھا یہ گڈھے کیسے پڑے ہیں؟ ایک عورت نے کہا ڈول رسی کی رگڑ کی وجہ سے اس پر گڈھے پڑے ہیں ، فوراً آپ کے دل میںیہ بات آئی کہ جب اس تختہ پر رسی کی رگڑ کی وجہ سے گڈھے پڑسکتے ہیں باوجود یہ کہ سخت ہے، تومیری زبان تو نرم ہے، میری شب وروز کی محنت اور جدوجہد سے کیا زبان میں سلاست پیدا نہیں ہوسکتی ۔ یہ بات دل میں کچھ اس طرح اثر کرگئی کہ اپنا ارادہ ملتوی کردیااور برابر علم