اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
کیا استغناء تھا،کیا بے غرضی تھی، جوکام کرتے تھے خلوص سے کرتے تھے، نہ ستائش کی پرواہ تھی نہ صلہ کی تمنا۔ (ناقابل فراموش واقعات)شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادیؒ کا استغناء مولوی محب اللہ خان صاحب نے بیان فرمایا کہ ہم سے نواب کلب علی خان والی ٔریاست رامپور بے تکلفی رکھتے تھے اور بہت محبت کرتے تھے ، ایک دن نواب صاحب نے ہم سے اپنا خیال ظاہر کیا کہ ہم کو بہت تمنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب محدث اگر رامپور میں ہمارے پاس تشریف لائیں تو بہت خوب ہو، کیونکہ سب اہل علم ہر فن کے مجتمع ہیں مگر وہی ایک صاحب یہاں نہیں ہیں، جو شاہ عبدالعزیز ؒ کے صحبت یافتہ ہیں، اس پر مولوی موصوف نے نواب صاحب سے کہا کہ اگر ان کو ہم لائیں تو آپ ان کے لئے کیا نذر کریں گے؟ نواب صاحب نے کہا لاکھ روپیہ! مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کرونگا ،چنانچہ مولوی محب اللہ کہتے تھے کہ ہم گنج مراد آباد پہنچے اور مولانا سے ملے، سب قسم کی باتیں توحید وغیرہ کی ہونے لگیں، پھر ہم نے عرض کیا کہ رامپورتشریف لے چلئے، نواب کلب علی خان آپ کے بہت مشتاق ہیں اور لاکھ روپیہ نذر کریں گے، آپ جس طرح سے بات کررہے تھے اسی طرح کرتے رہے اور اس حکایت کو معمولی بات کی طرح ٹال دیا اور فرمایا کہ میاں لاکھ روپیہ پر خاک ڈالو اور بات سنو ؎ جو ہم دل پر ان کا کرم دیکھتے ہیں تو دل کو بہ از جام جم دیکھتے ہیں اور پھر وہی سب عشق وغیرہ کی کہانی کرتے رہے۔ (اقوال سلف ج۴ ص ۹۴)مولانا محمد علی مونگیری ؒ کا غنائے قلب حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن صاحبؒ گنج مراد آبادیؒ کے صحبت یافتہ اور مجاز بیعت تھے، حدیث سے فطری مناسبت تھی، خود