اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ہے اور حرام و مشتبہ کھانے پر قلب میں ایک ظلمت سی چھا جاتی ہے جس سے توفیق طاعات بھی سلب ہوجاتی ہے اور ترقی کا دروازہ بھی بند ہوجاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کُلُوْامِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا میں اکل حلال کے بعد عمل صالح کی ترتیب سے اسی طرف اشارہ ہے کہ ترقی اور صالح زندگی کی بنیاد میں اکل حلال کو بڑا دخل ہے۔ حضرت مفتی محمود حسن صاحبؒ نے ارشاد فرمایا کہ کانپور میں مجھ سے ایک صاحب نے (جن کے والد بڑے نیک تھے اور ان کی یہ حالت نہ تھی) دریافت کیا کہ حضرت! اب پہلے جیسے علماء کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ میں نے کہا پہلے تم بتلائو کہ تم اپنے والد جیسے کیوں نہیں؟ تمہارے والد تو ایسے ایسے تھے تم ایسے کیوں نہیں؟ پھر کہا پہلے جیسے استاذ ہوتے تھے ویسے ہی ان کے شاگرد ہوتے تھے، اب مجھ جیسا استاذ ہے تو شاگرد بھی مجھ جیسا ہوگا۔ نیز پہلے کے لوگ خون پسینہ ایک کرکے جائز طریق سے کماتے تھے اور حرام سے اجتناب کرتے تھے، اسی خالص حلال کی کمائی سے اخلاص کے ساتھ چندہ دیتے تھے، وہی طلبہ پر صرف ہوتا تھا، اسلئے اس کے اثرات اچھے نمودار ہوتے تھے اور بہترین علماء تیار ہوتے تھے اور اب لوگوں میں حلال حرام کی تمیز نہیں رہی، بس مال کے پیچھے پڑتے ہیں ،کسی طرح ملنا چاہئے گو حرام ہی ہو، اسی سے چندہ دیتے ہیں، اگر حلال کمائی ہوئی بھی تو اس میں عامۃً اخلاص نہیں ہوتا، وہی طلبہ پر صرف ہوتا ہے ،بس جیسا مال ویسے ہی اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔ (ملفوظات فقیہ الامت)اسلاف کا تقویٰ و احتیاط ہمارے اسلاف کی زندگیاں تقویٰ و طہارت سے مزین تھیں، احکام شرع میں اپنی ذات کے بارے میں معمولی معمولی چیزوں میں بہت زیادہ