اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
یَتَحَدَّ ثُوْنَ کَانَ حَدِیْثُھُمْ الْفِقْہٗ اِلَّااَنْ یَّامُرُوْارَجُلًا فَیَقْرَئُ عَلَیْہِمْ سُوْرَۃً اَوْیَقْرَأُ رَجُلٌ سُوْرَۃً مِنَ الْقرَآنِ تھے تو ان کی گفتگو تفقہ فی الدین ہوتی تھی (دین کو سمجھنے سمجھانے کی ہوتی تھی) الایہ کہ کسی آدمی کو حکم دیتے وہ انکے سامنے کوئی سورت پڑھتا، یا اپنے طور پر کوئی آدمی قرآن کی کوئی سورت پڑھتا تھا، حضرت معاذ بن جبل کا آخری وقت تھا، کنیز سے فرمانے لگے کیا صبح ہوگئی؟ اس نے کہا ابھی نہیں، تھوڑی دیر کے بعد فرمایا اب دیکھ، اس نے کہا جی ہاں! صبح ہوگئی ہے، یہ سن کر فرمانے لگے ایسی صبح سے پناہ مانگتا ہوں جو دوزخ کی طرف لے جانے والی ہو، پھر کہنے لگے مرحبا اے موت! ایسے مہمان مرحبا! جو فاقے کے گھر میں آیا ہے، خدایا! تو خوب جانتا ہے معاذ دنیا میں رہنے کا اسلئے کبھی مشتاق نہ تھا، کہ نہریں لگائے، باغ لگائے، وہ تو بس ا سلئے زندہ تھا کہ لمبی راتیں مشقت میں کاٹے، دن کی سخت گرمی میں حلق میں کانٹے ڈالنے والی پیاس برداشت کرے اور علمی حلقوں میں علماء کے ہجوم میں رہا کرے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورؐ سے پوچھا کہ آپؐ کی شفاعت کا قیامت کے دن کون زیادہ حقدار ہوگا؟ تو حضورؐ نے فرمایا ابوہریرہ ! تمہارے حدیث پر حرص اور ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے یہی گمان تھا کہ یہ سوال تم سے پہلے کوئی نہ کرے گا، پھر جواب دیا کہ قیامت کے روز میری شفاعت کا زیادہ حقدار وہ شخص ہوگا جو دل کے اخلاص کے ساتھ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہے۔ (بخاری)بڑوں، بوڑھوں میں علمی ذوق و شوق درسگاہ نبوی میں بوڑھے اور سن رسیدہ طلبہ بھی علم حاصل کرتے تھے اور علم کا بے انتہا شوق رکھتے تھے، عام طلبہ اس درسگاہ کے ایسے ہی تھے، جنہوں نے بڑی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم سیکھا تھا، امام بخاریؒ نے تصریح کی ہے ’’وَقَد