اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
طلبہ کی خودرائی اور آزاد ی کا حال آج کل طلبہ کا یہ حال ہوگیا ہے کہ خود کو استاذ کے تابع توکیا بناتے خود استاذ پر حکم چلاتے ہیں، جس کے نتیجے میںوہ علم سے محروم رہتے ہیں۔ حضرت اقدس تھانویؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ کانپور کے ایک مدرسہ کے طالب علم نے مجھ سے خودبیان کیا کہ اس سال استاذ نے تو ’’تصریح‘‘پڑھنے کی رائے دی تھی مگر میری زبان سے ’’شرح چغمینی‘‘ کا نام نکل گیا تھا، بس مجھے اسی کی ضد ہوگئی اور وہی شروع کرکے چھوڑی۔ اسی طرح ایک مدرسہ میں کسی کتاب کے ختم پرطلبہ اور استاذ کی یہ رائے ہوئی کہ شمس بازغہ ہونا چاہیئے، ایک طالب علم کی یہ رائے ہوئی کہ نہیں بلکہ ’’صدرا‘‘ ہونا چاہیئے، خیر شمس بازغہ ہی ہونا طے پایا۔ تو آپ رات کواستاذ کے پاس پہنچے ، ان کو مکان سے باہر بلاکر کہتے ہیں کہ مولوی صاحب! خیریت اسی میںہے کہ صدرا ہو، اناللہ واناالیہ راجعون، بھلا اس حالت میں ان کم بختوں کو کیا علم حاصل ہوگا، بس کتابیں ختم کرلیںگے مگر علم جس کا نام ہے اس کی ہوا بھی نہ لگے گی۔ (حسن العزیز)علم کی خاطر عالم کی خاطر مشقتیں برداشت کرنا علم کی گرانما یہ دولت حاصل کرنے کے لئے ہرطرح کی تکالیف اور مشقتوں کوخندہ پیشانی کیساتھ برداشت کرتے رہنا چاہیئے اور تحصیل علم میں برابرلگے رہنا چاہیئے ، کہ دنیا کی ادنیٰ شئی بھی بدون محنت ومشقت کے حاصل نہیں ہوتی، ابوکثیر ؒ کہتے ہیں کہ علم کی میراث سونے چاندی کی میراث سے بہتر ہے