اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
اختیار کرے گا نفع کمائیگا اور چھوڑدے گا تو محروم رہے گا ۔ ایک حدیث شریف کا مضمون ہے کہ طلب علم کے سواکسی چیز میں خوشامدکرنا مومن کی شان نہیں ہے۔ حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ میں اس شخص کا غلام ہوں جس نے مجھے ایک حرف سکھایا، اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو آزاد کردے یا اپنا غلام رکھے ۔ ارواح ثلثہ میں لکھا ہے کہ حضرت نانوتوی نوراللہ مرقدہٗ کی خدمت میں حیدرآباد کے دونواب زادے پڑھنے کے لئے آئے ہوئے تھے ، حضرت کبھی کبھی ان سے پاؤں دبوایا کرتے تھے، ایک بار فرمایا کہ مجھ کو تو اس کی ضرورت نہیں کہ ان سے پاؤں دبواؤں مگر علم اسی طرح آتاہے۔استاذ کے احسان کی مکافات استاذ حق تعالیٰ شانہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور علم دین کا واسطہ ہے، جس کے ذریعہ انسان اپنی اخروی زندگی سنوارسکتا ہے اور قعرمذلت سے نکل کر عزت کے منارے پر رونق افروز ہوسکتاہے۔ استاذ کے بیشمار احسانات ہیں، جن سے طالب علم کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتا، لہٰذا طالب علم کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ استاذ کی خدمت کرتارہے اور اس کو اپنے لئے سعادت اور فلاح دارین کا ذریعہ سمجھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے عَنْ اِبْنِ عُمَرَؓ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَنَعَ اِلَیْکُمْ مَعْرُوْفًا فَکَافِئُوْہٗ فَاِنْ لَمْ تَجِدُوْامَاتُکَا فِئُوْنَہٗ فَادْعُوْالَہٗ حَتّٰی تَرَوْا اَنَّکُمْ قَدْ کَا فَئْتُمُوْہٗ، رواہٗ احمد، ابوداؤد ، والنسائی وغیرھم جوشخص تم پر احسان کرے ، اگر تم اس کو بدلہ دے سکتے ہو اور اس کی مکافات کرسکتے ہو تو کردو ورنہ اس کیلئے اتنی دعا کرو کہ تمہیں گمان ہونے لگے کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا۔