اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
اور غایت درجہ کا تضرع و عبدیت کی روح بھری ہوئی ہے، یہ دعائیں آپؐ کا خاص الخاص ورثہ ہے۔طائف کے سفر کی دعا کے الفاظ میں ذرا غور کریں کہ کس طرح تضرع و گریہ زاری اور جلال خداوندی کی ہیبت اور اپنی بے کسی و بے بسی ہے۔ لہٰذا طالبان علوم نبوت کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ شروع ہی سے اپنے ہر مسئلہ کو اللہ سے حل کرانے کی اور دعا و مناجات کی عادت ڈالیں، علم نافع کی دولت بھی اللہ ہی سے مانگیں اور احادیث کی ماثور دعائوں کو اپنا معمول بنائیں۔ (افادات مولانا منظور نعمانیؒ)اللہ کی طرف سے دعا مانگنے کا حکم اور امت محمدیہ کا خاص اعزاز ارشاد باری عزاسمہ ہے وَقَالَ رَبَّکُمْ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ، اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْ خُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ (سورۂ مومن) ترجمہ: تمہارے پروردگار نے فرما دیا ہے کہ مجھ کو پکارو، میں تمہاری درخواست قبول کرونگا۔ جو لوگ میری بندگی سے سرتابی کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہونگے۔ یہ آیت امت محمدیہ کا خاص اعزاز ہے کہ ان کو دعا مانگنے کا حکم دیا گیا اور اس کی قبولیت کا وعدہ کیا گیا اور جو دعا نہ مانگے اس کے لئے عذاب کی وعید آئی ہے۔ حضرت قتادہ نے کعب احبار سے نقل کیا ہے کہ پہلے زمانے میں یہ خصوصیت انبیاء کی تھی کہ ان کو اللہ کی طرف سے حکم ہوتا تھا کہ آپ دعا کریں میں قبول کرونگا، امت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ حکم تمام امت کے لئے عام کردیا گیا۔ (معارف القرآن ج۷ص۶۱۰ بحوالہ… ابن کثیر)