اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
وزیروں اور بڑے رتبے کے لوگوں سے ملتے تو بلا مرعوبیت کے ان کو ایسی نصیحت کرتے جو حکمرانی کے لئے مفید ہوتیں، ان میں جو عیوب و نقائص دیکھتے تھے برملا کہہ دیتے تھے، حق کے اظہار سے جان تک کا خوف نہ کرتے تھے۔ ؎ چھائوں میں ہم جاکے تلواروں کی کہہ آتے تھے حق غالب آتا تھا نہ ہم پر خوف سلطان و وزیراسلاف کی شان استغنا حسین بن علی سے مروی ہے کہ ہارون الرشید نے حج کیا اور مدینے میں حاضری دی، امام مالک زندہ تھے، ان کی خدمت میں پانچ سو دینار کا توڑا بھیجا، پھر جب وہ واپس ہونے لگا تو کہلایا’’ امیر المومنین کی خوشی ہے کہ آپ ان کے ساتھ بغداد تشریف لے چلیں‘‘ یہ سن کر امام مالک نے قاصد سے کہا ،اپنے آقا سے کہہ دینا کہ تمہاری تھیلی اسی طرح سربمہر رکھی ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’مدینہ اپنے باشندوں کے لئے بہترین مقام ہے بشرطیکہ وہ سمجھیں‘‘ (جامع بیان العلم) ابراہیم حربی امام احمد بن حنبلؒ کے شاگرد تھے اور بغداد میں خلیفہ معتضد کے زمانہ میں تھے، خلیفہ کے محل کے پاس ان کا مکان تھا ،مگر ان کے استغناء کا یہ حال تھا کہ زندگی بھر کبھی معتضد کے دربار میں نہیں گئے، باوجود یکہ وہ ہمیشہ خواہش مند رہا۔ ابوالفتح عبدالرحمن خازنی ابوعلی خازن رئیس مرو (ایران) کے غلام تھے، بڑے عالم و فاضل خصوصاً علوم ہندسہ میں کامل مہارت رکھتے تھے، سلطان سنجر سلجوقی ان پر بہت ہی مہربان تھا، عبدالرحمن نے آخر عمر میں جب گوشہ نشینی اختیار کرلی تو سلطان نے ایک مرتبہ ان کے پاس پانچ ہزار روپئے کے دینار بھیجے، انہوں نے