اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
صاحب سے نہایت انہماک سے پڑھی تھی، حمداللہ میں نے اٹھارہ دن میں پڑھی ہے، ظہر کے بعد اس کا سبق ہوتا تھا، اس لئے میں صبح ہی ’’ حمد اللہ‘‘ اور اس کے حواشی لے کر مطالعہ دیکھنے کو نانی اماں کے چھت پر جا بیٹھتا تھا اور بارہ بجے اتر کر استاذ کی خدمت میں حاضر ہوتا ،بسا اوقات حمداللہ کے سبق میں استاذ سے بحث بھی ہوجاتی تھی۔ (آپ بیتی) حضرت مولانا قاری عبدالرحمن صاحب محدث پانی پتی کے حالات میں ہے کہ ابتدائی کتابیں اپنے والد صاحب سے پڑھ رہے تھے، ایک دن اچھی طرح مطالعہ نہیں کرسکے، والد صاحب نے سبق نہیں پڑھایا، حضرت قاری صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ کھانا نہ کھایا گیا اس کے بعد مطالعہ کا ناغہ کبھی نہیں ہوا۔ (آداب المتعلمین) اس قسم کے بیسیوں واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اسلاف کس طرح اسباق کی تیاری اور مطالعہ کا اہتمام فرماتے تھے۔طلبہ کی عمومی غفلت و لاپرواہی حضرت امام شافعیؒ کا ارشاد ہے کہ وہ شخص کامیاب نہیں ہے جو علم کو کاہلی اور لاپرواہی سے حاصل کرے، بلکہ جو شخص نفس کی ذلت اور معاش کی تنگی کے ساتھ حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔ آج کل طلبہ میں عام طور پر غفلت و لاپرواہی پائی جاتی ہے یا تو اسباق میں حاضری نہیں دیتے، بعضے تو ہفتوں اور مہینوں کتاب کی صورت تک نہیں دیکھتے اور بعضے حاضر تو ہوتے ہیں مگر لاپرواہی کے ساتھ سبق سنتے ہیں، پھر جب مطلب سمجھ میں نہیں آتا تو استاذ سے جھگڑتے ہیں ، مجادلہ کرتے ہیں۔