اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
صاحبؒ دونوں ہوں ، توہم جنید کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھیں گے، وہ حضرت حاجی صاحب کے پیر ہوں گے، ہمارا تعلق تو حضرت حاجی صاحب سے ہے۔ ؎ دیروحرم میں روشنی شمس وقمرسے ہوتو کیا مجھ کوتو تم پسند ہو اپنی نظرکو کیا کروںطلبہ کا اساتذہ سے تعلق اور اس کی حسی مثال حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاویؒ فرمایا کرتے تھے کہ اس زمانے میںطلبہ نے اساتذہ سے کنکشن کاٹ رکھا ہے، اس لئے علم وعمل میں نمایاں کمی ہوتی جارہی ہے، طلبہ میں صلاحیت اب بھی پائی جاتی ہے، بجلی کے بلب کی مثال دیا کرتے تھے اور فرماتے مولوی صاحب! بلب مختلف ہوتے ہیں ، کوئی سو والٹس کا ہوتا ہے کوئی دوسوکا اور کوئی چالیس اور ساٹھ کا، مگر یہ اس وقت تک روشنی نہیںدے سکتا جب تک اس کا کنکشن پاورہاؤس سے جڑنہ جائے اورپاورہاؤس اساتذہ ہوتے ہیں، جو طلبہ کنکشن نہیںجوڑتے وہ محروم رہتے ہیں۔ (اقوال سلف)ہمارے اسلاف اور اساتذہ کی خدمت ہمارے اسلاف جو دنیا میں آفتاب وماہتاب بن کر چمکے ہیں اور جن کے ذریعہ علم وہدایت کی روشنی پھیلی ، اگر ان کی زندگی او رسوانح کا مطالعہ کیاجائے تو ان کی زندگی میں علاوہ اور اوصاف کے اساتذہ کی خدمت ولگاؤ نمایاں نظر آئیگا۔ حضرت نافع مولی ابن عمرؓ جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے خاص شاگرد اورجلیل القدر تابعی فقیہ ہیں، فرماتے ہیں کہ میں نے تیس سال تک عبداللہ بن عمر کی خدمت کی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو اپنے اس عالم وفقیہ غلام پر بڑا ناز تھا، بہت چاہتے تھے اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے نافع کے ذریعہ مجھ پر احسان کیا ہے۔ حماد بن سلمہ کی ہمشیرہ عاتکہ فرماتی ہیںکہ امام ابوحنیفہ ہمارے گھر کی روئی